Al-Quran-al-Kareem - Yunus : 59
قُلْ اَرَءَیْتُمْ مَّاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ لَكُمْ مِّنْ رِّزْقٍ فَجَعَلْتُمْ مِّنْهُ حَرَامًا وَّ حَلٰلًا١ؕ قُلْ آٰللّٰهُ اَذِنَ لَكُمْ اَمْ عَلَى اللّٰهِ تَفْتَرُوْنَ
قُلْ : آپ کہ دیں اَرَءَيْتُمْ : بھلا دیکھو مَّآ اَنْزَلَ : جو اس نے اتارا اللّٰهُ : اللہ لَكُمْ : تمہارے لیے مِّنْ : سے رِّزْقٍ : رزق فَجَعَلْتُمْ : پھر تم نے بنا لیا مِّنْهُ : اس سے حَرَامًا : کچھ حرام وَّحَلٰلًا : اور کچھ حلال قُلْ : آپ کہ دیں آٰللّٰهُ : کیا اللہ اَذِنَ : حکم دیا لَكُمْ : تمہیں اَمْ : یا عَلَي : اللہ پر اللّٰهِ : اللہ تَفْتَرُوْنَ : تم جھوٹ باندھتے ہو
کہہ کیا تم نے دیکھا جو اللہ نے تمہارے لیے رزق اتارا، پھر تم نے اس میں سے کچھ حرام اور کچھ حلال بنا لیا۔ کہہ کیا اللہ نے تمہیں اجازت دی ہے، یا تم اللہ پر جھوٹ باندھ رہے ہو۔
قُلْ اَرَءَيْتُمْ مَّآ اَنْزَلَ اللّٰهُ لَكُمْ مِّنْ رِّزْقٍ۔۔ : مشرکین اور یہود نے اپنے پاس سے کئی حلال چیزوں کو حرام اور حرام کو حلال کر رکھا تھا، ان سے سوال ہے کہ بتاؤ تم نے یہ حلال و حرام کس کے کہنے پر قرار دیے ہیں ؟ تفصیل پیچھے گزر چکی ہے، مثلاً مشرکین کے متعلق دیکھیے سورة مائدہ (103) ، انعام (118 تا 121 اور 136 تا 140) اور یہود کے متعلق دیکھیے سورة آل عمران (93) اور ان کے فوائد۔ اَمْ عَلَي اللّٰهِ تَفْتَرُوْنَ : اس سے معلوم ہوا کہ اپنی خواہشوں سے حرام کو حلال اور حلال کو حرام قرار دینا افتراء علی اللہ، یعنی اللہ پر بہتان باندھنا ہے۔ (ابن کثیر) قاضی شوکانی فرماتے ہیں کہ اس آیت میں ان مقلد حضرات کے لیے سخت تنبیہ ہے جو فتویٰ صادر فرمانے کی کرسی پر براجمان ہوجاتے ہیں اور حلال و حرام اور جائز و ناجائز ہونے کے فتوے صادر کرتے ہیں، حالانکہ وہ قرآن و حدیث کا علم نہیں رکھتے، ان کے علم کی رسائی صرف یہاں تک ہوتی ہے کہ امت کے کسی ایک شخص نے جو بات کہہ دی ہے اسے نقل کردیتے ہیں، گویا انھوں نے اس شخص کو شارع (اللہ اور اس کے رسول) کی حیثیت دے رکھی ہے، کتاب و سنت کے جس حکم پر اس نے عمل کیا اس پر یہ بھی عمل کریں گے اور جو چیز اسے نہیں پہنچی یا پہنچی مگر وہ اسے ٹھیک طرح سمجھ نہ سکا یا سمجھا مگر اپنے اجتہاد و ترجیح میں غلطی کر بیٹھا، وہ ان کی نظر میں منسوخ ہے اور اس کا حکم ختم ہے، حالانکہ جس کی یہ لوگ تقلید کر رہے ہیں وہ بھی شریعت اور اس کے احکام کا اسی طرح پابند تھا جس طرح خود یہ لوگ۔ اس نے اجتہاد سے کام لیا اور جس رائے پر پہنچا اسے بیان کردیا۔ اگر اس نے غلطی نہیں کی تو اسے دوہرا اجر ملے گا اور اگر غلطی کی تو اکہرا اجر پائے گا۔ وہ شخص تو اپنی جگہ معذور ہے، مگر یہ حضرات کسی طرح بھی معذور قرار نہیں دیے جاسکتے جنھوں نے اس کی آراء کو ایک مستقل شریعت اور قابل عمل دلیل بنا لیا۔ اہل علم کے نزدیک کسی مجتہد کی تقلید کرتے ہوئے اس کے اجتہاد پر عمل کرنا صحیح نہیں۔ (شوکانی)
Top