Al-Quran-al-Kareem - Yunus : 74
ثُمَّ بَعَثْنَا مِنْۢ بَعْدِهٖ رُسُلًا اِلٰى قَوْمِهِمْ فَجَآءُوْهُمْ بِالْبَیِّنٰتِ فَمَا كَانُوْا لِیُؤْمِنُوْا بِمَا كَذَّبُوْا بِهٖ مِنْ قَبْلُ١ؕ كَذٰلِكَ نَطْبَعُ عَلٰى قُلُوْبِ الْمُعْتَدِیْنَ
ثُمَّ : پھر بَعَثْنَا : ہم نے بھیجے مِنْۢ بَعْدِهٖ : اس کے بعد رُسُلًا : کئی رسول اِلٰى : طرف قَوْمِهِمْ : ان کی قوم فَجَآءُوْھُمْ : وہ آئے ان کے پاس بِالْبَيِّنٰتِ : روشن دلیلوں کے ساتھ فَمَا كَانُوْا لِيُؤْمِنُوْا : سو ان سے نہ ہوا کہ وہ ایمان لے آئیں بِمَا : اس پر جو كَذَّبُوْا : انہوں نے جھٹلایا بِهٖ : اس کو مِنْ قَبْلُ : اس سے قبل كَذٰلِكَ : اسی طرح نَطْبَعُ : ہم مہر لگاتے ہیں عَلٰي : پر قُلُوْبِ : دل (جمع) الْمُعْتَدِيْنَ : حد سے بڑھنے والے
پھر اس کے بعد ہم نے کئی پیغمبر ان کی قوم کی طرف بھیجے تو وہ ان کے پاس واضح دلائل لے کر آئے۔ سو وہ ہرگز ایسے نہ تھے کہ اس پر ایمان لاتے جسے اس سے پہلے جھٹلا چکے تھے۔ اسی طرح ہم حد سے گزرنے والوں کے دلوں پر مہر کردیتے ہیں۔
ثُمَّ بَعَثْنَا مِنْۢ بَعْدِهٖ رُسُلًا اِلٰى قَوْمِهِمْ : یہاں نوح ؑ کے بعد جن پیغمبروں کے مبعوث ہونے کی طرف اشارہ فرمایا ہے ان میں ہود، صالح، ابراہیم، لوط اور شعیب ؑ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ جن کا تذکرہ اگلی سورت ہود میں آ رہا ہے اور قرآن کے دوسرے مقامات پر بھی مرقوم ہے اور ”الی قومھم“ کے الفاظ سے اشارہ فرما دیا ہے کہ نوح ؑ اور ان کے بعد جتنے پیغمبر ہوئے ہیں ان میں سے کسی کی رسالت بنی نوع انسان کے لیے عام نہیں تھی بلکہ خاص خاص اقوام کی طرف مبعوث ہوتے رہے ہیں۔ البتہ نوح ؑ کی بعثت میں اختلاف ہے، صحیح یہ ہے کہ وہ بھی خاص طور پر اپنی قوم ہی کی طرف مبعوث تھے۔ (ہمارے استاذ مولانا محمد عبدہ ؓ کی تحقیق کے مطابق صحیح یہی ہے کہ طوفان سے روئے زمین کے تمام لوگ غرق نہیں ہوئے بلکہ خاص علاقہ تباہ و برباد ہوا ہے) یہ درجہ رسول اللہ ﷺ ہی کو حاصل ہے کہ ان کی رسالت تمام اقوام عالم کے لیے عام ہے اور قیامت تک اسی طرح باقی رہے گی۔ دیکھیے سورة سبا (28)۔ فَجَاۗءُوْھُمْ بالْبَيِّنٰتِ : یعنی ایسے دلائل و معجزات لے کر آئے جو اس بات پر دلالت کرتے تھے کہ واقعی یہ اللہ کے رسول ہیں۔ ہمارے رسول ﷺ کا معجزہ قرآن سب سے بڑا اور سب سے زیادہ مؤثر تھا، جس کی وجہ سے آپ کی امت بھی سب سے زیادہ ہوئی۔ تفصیل کے لیے دیکھیے سورة عنکبوت (50، 51) کے فوائد۔ فَمَا كَانُوْا لِيُؤْمِنُوْا بِمَا كَذَّبُوْا بِهٖ مِنْ قَبْلُ : لیکن یہ امتیں رسولوں کی دعوت پر ایمان نہیں لائیں، اس کا سبب یہ ہوا کہ جب اللہ کے رسول شروع میں ان کے پاس آئے تو انھوں نے اپنی سرکشی اور تکبر کی وجہ سے ایمان لانے سے انکار کردیا اور یہ انکار ان کے لیے مستقل حجاب بن گیا اور وہ یہی سوچتے رہے کہ جسے ہم جھٹلا چکے اب اس پر ایمان کیسے لائیں۔ نتیجتاً وہ ایمان کی نعمت سے محروم رہے۔ امام ابن جریر ؓ نے ”کَذَّبُوْا“ کا فاعل قوم نوح کو بنایا ہے۔ اس صورت میں معنی یہ ہوگا کہ ان رسولوں کی قومیں بھی ایسی نہ تھیں جو اس چیز پر ایمان لاتیں جسے قوم نوح اور پہلے کے لوگ اس سے قبل جھٹلا چکے تھے، بلکہ ان کے دلوں پر قوم نوح کی طرح مہر لگ گئی۔ پہلا معنی زیادہ مناسب ہے، اگرچہ یہ بھی درست ہے۔ كَذٰلِكَ نَطْبَعُ عَلٰي قُلُوْبِ الْمُعْتَدِيْنَ : یعنی ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ آخر کار یہ سزا دیتا ہے کہ انھیں کبھی راہ ہدایت پانے کی توفیق نہیں ہوتی اور یہی مطلب ہے اللہ تعالیٰ کا ان کے دلوں پر مہر لگانے کا۔ آئندہ بھی جو یہ روش اختیار کرے گا اسے یہی سزا ملے گی۔ دیکھیے سورة بقرہ (7) ، انعام (109، 110) اور انفال (24)۔
Top