Al-Quran-al-Kareem - Yunus : 91
آٰلْئٰنَ وَ قَدْ عَصَیْتَ قَبْلُ وَ كُنْتَ مِنَ الْمُفْسِدِیْنَ
آٰلْئٰنَ : کیا اب وَقَدْ عَصَيْتَ : اور البتہ تو نافرمانی کرتا رہا قَبْلُ : پہلے وَكُنْتَ : اور تو رہا مِنَ : سے الْمُفْسِدِيْنَ : فساد کرنے والے
کیا اب ؟ حالانکہ بیشک تو نے اس سے پہلے نافرمانی کی اور تو فساد کرنے والوں سے تھا۔
اٰۗلْئٰنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ۔۔ : کیا اب ؟ یہ اللہ کی طرف سے ڈانٹ تھی اور بتانا تھا کہ عذاب نازل ہوجانے کے بعد توبہ کرنے اور ایمان لانے سے کوئی فائدہ نہیں، فرمایا : (فَلَمْ يَكُ يَنْفَعُهُمْ اِيْمَانُهُمْ لَمَّا رَاَوْا بَاْسَـنَا) [ المؤمن : 85 ] ”پھر یہ نہ تھا کہ ان کا ایمان انھیں فائدہ دیتا جب انھوں نے ہمارا عذاب دیکھ لیا۔“ اور دیکھیے سورة یونس (51) اور نساء (18) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (إِنَّ اللّٰہَ یَقْبَلُ تَوْبَۃَ الْعَبْدِ مَا لَمْ یُغَرْغِرْ) [ ترمذی، الدعوات، باب إن اللہ یقبل توبۃ العبد ما لم یغرغر۔۔ : 3537، عن ابن عمر ]”بیشک اللہ بندے کی توبہ قبول کرتا ہے، جب تک اس کا غرغرہ (جان نکلنے کی حالت) نہ ہو۔“ 3 فرعون کی سرکشی پر اللہ کے فرشتوں کو بھی اس قدر غصہ تھا کہ ابن عباس ؓ نے رسول اللہ ﷺ سے روایت کیا : (قَالَ لِیْ جِبْرِیْلُ لَوْ رَأَیْتَنِیْ وَأَنَا آخِذٌ مِنْ حَالِ الْبَحْرِ فَأُدُسُّہٗ فِيْ فَمِ فِرْعَوْنَ مَخَافَۃَ أَنْ تُدْرِکَہُ الرَّحْمَۃُ) [ السلسلۃ الصحیحۃ : 5؍26، ح : 2015۔ مسند طیالسی : 2618۔ ترمذی : 3108 ] ”مجھ سے جبریل ؑ نے کہا، کاش ! آپ مجھے دیکھتے کہ میں سمندر کا سیاہ کیچڑ اٹھا کر فرعون کے منہ میں ٹھونس رہا تھا، اس خوف سے کہ کہیں اس کو رحمت نہ آپہنچے۔“ 3 یہ واقعہ دس محرم (عاشوراء) کو پیش آیا۔ ابن عباس ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ مدینہ تشریف لائے تو یہودی عاشوراء کے دن کا روزہ رکھتے تھے، آپ نے فرمایا : (مَا ھٰذَا ؟ قَالُوْا ھٰذَا یَوْمٌ صَالِحٌ، ھٰذَا یَوْمٌ نَجَّی اللّٰہُ بَنِيْ إِسْرَاءِیْلَ مِنْ عَدُوِّھِمْ ، فَصَامَہٗ مُوْسٰی قَالَ فَأَنَا أَحَقُّ بِمُوْسَی مِنْکُمْ ، فَصَامَہٗ وَأَمَرَ بِصِیَامِہِ) [ بخاری، الصوم، باب صوم یوم عاشوراء : 2004 ] ”یہ کیا ہے ؟“ انھوں نے کہا : ”یہ ایک صالح دن ہے، اس دن اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو ان کے دشمن سے نجات دلائی تھی تو موسیٰ ؑ نے اس دن کا روزہ رکھا۔“ آپ ﷺ نے فرمایا :”پھر میں تم سے زیادہ موسیٰ ؑ پر حق رکھنے والا ہوں۔“ چناچہ آپ نے اس (دن) کا روزہ رکھا اور اس کا روزہ رکھنے کا حکم دیا۔“ صحیح بخاری ہی کی دوسری روایت میں ہے : (ھٰذَا یَوْمٌ ظَھَرَ فِیْہِ مُوْسَی عَلٰی فِرْعَوْنَ. فَقَال النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِأَصْحَابِہِ أَنْتُمْ أَحَقُّ بِمُوْسَی مِنْھُمْ فَصُوْمُوْا) [ بخاری، التفسیر، باب : (وجاوزنا ببني إسرائیل البحر) : 4680 ] ”اس دن موسیٰ ؑ فرعون پر غالب آئے تھے، تو نبی ﷺ نے اپنے صحابہ سے فرمایا :”تم ان (یہود) سے زیادہ موسیٰ ؑ پر حق رکھتے ہو، پس روزہ رکھو۔“
Top