Al-Quran-al-Kareem - Hud : 25
وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰى قَوْمِهٖۤ١٘ اِنِّیْ لَكُمْ نَذِیْرٌ مُّبِیْنٌۙ
وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا : ہم نے بھیجا نُوْحًا : نوح اِلٰي : طرف قَوْمِهٖٓ : اس کی قوم اِنِّىْ : بیشک میں لَكُمْ : تمہارے لیے نَذِيْرٌ : ڈرانے والا مُّبِيْنٌ : کھلا
اور بلاشبہ یقینا ہم نے نوح کو اس کی قوم کی طرف بھیجا، بیشک میں تمہارے لیے صاف صاف ڈرانے والا ہوں۔
وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰي قَوْمِهٖٓ : جن حالات میں نبی ﷺ مکہ میں توحید کی دعوت پیش کر رہے تھے، وہ چونکہ ویسے ہی حالات تھے جو آپ ﷺ سے پہلے دوسرے انبیاء ؑ کو پیش آ چکے تھے، اس لیے حسب موقع یہاں سے گزشتہ انبیاء کا ذکر کیا جا رہا ہے اور باقی سورت تقریباً اسی تذکرے سے بھری ہوئی ہے، تاکہ ایک طرف رسول اللہ ﷺ کی ہمت بندھے، آپ کو اور مسلمانوں کو تسلی ہو کہ انجام کار اللہ کے رسولوں اور اہل حق کی اللہ تعالیٰ کی طرف سے یقیناً مدد ہوتی ہے اور دوسری طرف پہلی قوموں کے اعتراضات اور ان کے انبیاء کے جوابات آپ کے لیے نمونہ بنیں اور آپ کی قوم کو پہلے کفار کے انجام سے ڈرایا جائے۔ آدم ؑ اللہ تعالیٰ کے نبی تھے، وہ اور ان کی اولاد سب موحد اور دین حق پر تھے، پھر شیطان کے بہکانے سے بزرگوں کی پوجا بت پرستی کی صورت میں شروع ہوئی۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے زمین پر سب سے پہلے رسول نوح ؑ بھیجے گئے، جیسا کہ حدیث شفاعت میں ہے اور بت پرستی کے آغاز کی تفصیل سورة نوح میں آئے گی۔ نوح ؑ کا ذکر قرآن میں 43 بار آیا ہے۔ اِنِّىْ لَكُمْ نَذِيْرٌ مُّبِيْنٌ : نوح ؑ نے صرف ڈرانے کا ذکر اس لیے فرمایا کہ ان کی قوم نے سمع و طاعت کا اظہار ہی نہیں کیا کہ انھیں خوش خبری دی جاتی۔
Top