Tafseer Ibn-e-Kaseer - Al-Hadid : 1
قَالَ یٰقَوْمِ اَرَءَیْتُمْ اِنْ كُنْتُ عَلٰى بَیِّنَةٍ مِّنْ رَّبِّیْ وَ اٰتٰىنِیْ رَحْمَةً مِّنْ عِنْدِهٖ فَعُمِّیَتْ عَلَیْكُمْ١ؕ اَنُلْزِمُكُمُوْهَا وَ اَنْتُمْ لَهَا كٰرِهُوْنَ
قَالَ : اس نے کہا يٰقَوْمِ : اے میری قوم اَرَءَيْتُمْ : تم دیکھو تو اِنْ : اگر كُنْتُ : میں ہوں عَلٰي : پر بَيِّنَةٍ : واضح دلیل مِّنْ رَّبِّيْ : اپنے رب سے وَاٰتٰىنِيْ : اور اس نے دی مجھے رَحْمَةً : رحمت مِّنْ عِنْدِهٖ : اپنے پاس سے فَعُمِّيَتْ : وہ دکھائی نہیں دیتی عَلَيْكُمْ : تمہیں اَنُلْزِمُكُمُوْهَا : کیا ہم وہ تمہیں زبردستی منوائیں وَاَنْتُمْ : اور تم لَهَا : اس سے كٰرِهُوْنَ : بیزار ہو
اس نے کہا اے میری قوم ! کیا تم نے دیکھا کہ اگر میں اپنے رب کی طرف سے ایک واضح دلیل پر (قائم) ہوں اور اس نے مجھے اپنے پاس سے بڑی رحمت عطا فرمائی ہو، پھر وہ تم پر مخفی رکھی گئی ہو، تو کیا ہم اسے تم پر زبردستی چپکا دیں گے، جب کہ تم اسے ناپسند کرنے والے ہو۔
قَالَ يٰقَوْمِ اَرَءَيْتُمْ اِنْ كُنْتُ عَلٰي بَيِّنَةٍ مِّنْ رَّبِّيْ۔۔ : نوح ؑ نے ان کے تمام اعتراضات کا جامع جواب دیا، ایک تو یہ کہ میرے پاس میرے رب کی طرف سے اللہ تعالیٰ کی توحید اور اپنی رسالت کے مضبوط دلائل اور پختہ یقین موجود ہے، یعنی ”وَاٰتٰىنِيْ رَحْمَةً مِّنْ عِنْدِهٖ“ دوسرا یہ کہ یہ نبوت کسی کی محنت کا نتیجہ یا کسی کے آبا و اجداد کی جائداد نہیں، یہ تو محض اللہ تعالیٰ کی اپنے پاس سے خاص عنایت ہے، اس کی تقسیم تمہارے ہاتھ میں نہیں۔ یہ اللہ جسے چاہے دیتا ہے، خواہ وہ غریب ہو یا امیر، جیسا کہ مکہ والوں نے ہمارے نبی کریم ﷺ پر اعتراض کیا تھا : (وَقَالُوْا لَوْلَا نُزِّلَ ھٰذَا الْقُرْاٰنُ عَلٰي رَجُلٍ مِّنَ الْقَرْيَـتَيْنِ عَظِيْمٍ) [ الزخرف : 31 ] ”اور انھوں نے کہا کہ یہ قرآن ان دو بستیوں (مکہ اور طائف) میں سے کسی بڑے آدمی پر کیوں نازل نہ کیا گیا ؟“ اللہ تعالیٰ نے ان کا جواب دیا : (اَهُمْ يَــقْسِمُوْنَ رَحْمَتَ رَبِّكَ ۭ نَحْنُ قَسَمْنَا بَيْنَهُمْ مَّعِيْشَتَهُمْ فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا) [ الزخرف : 32 ] ”کیا وہ تیرے رب کی رحمت تقسیم کرتے ہیں ؟ ہم نے خود ان کے درمیان ان کی معیشت دنیا کی زندگی میں تقسیم کی۔“ فَعُمِّيَتْ عَلَيْكُمْ : اس کا مادہ ”عَمْیٌ“ ہے، اندھا ہونا، یعنی یہ بتاؤ کہ اگر تمہیں اس دلیل اور رحمت سے اندھا رکھا گیا ہو اور تمہاری بےوقوفی کی وجہ سے وہ تم پر ایسی مخفی رہی ہو کہ تم دیکھ ہی نہ سکے ہو تو اس میں ہمارا کیا قصور ہے ؟ اَنُلْزِمُكُمُوْهَا وَاَنْتُمْ لَهَا كٰرِهُوْنَ : یعنی کیا ہم زبردستی تمہیں اس دلیل کا قائل کرلیں اور اس رحمت کے سائے میں دھکے سے داخل کرلیں، جب کہ تم اس سے نفرت کرتے ہو اور دور بھاگتے ہو۔ ”اَنُلْزِمُكُمُوْهَا“ میں ایک لفظ کے اندر تین ضمیروں کو ایسے طریقے سے جمع کیا ہے کہ لفظ انتہائی خوبصورت اور واضح ہوگیا ہے۔
Top