Al-Quran-al-Kareem - Hud : 54
اِنْ نَّقُوْلُ اِلَّا اعْتَرٰىكَ بَعْضُ اٰلِهَتِنَا بِسُوْٓءٍ١ؕ قَالَ اِنِّیْۤ اُشْهِدُ اللّٰهَ وَ اشْهَدُوْۤا اَنِّیْ بَرِیْٓءٌ مِّمَّا تُشْرِكُوْنَۙ
اِنْ : نہیں نَّقُوْلُ : ہم کہتے اِلَّا : مگر اعْتَرٰىكَ : تجھے آسیب پہنچایا ہے بَعْضُ : کسی اٰلِهَتِنَا : ہمارا معبود بِسُوْٓءٍ : بری طرح قَالَ : اس نے کہا اِنِّىْٓ : بیشک میں اُشْهِدُ : گواہ کرتا ہوں اللّٰهَ : اللہ وَاشْهَدُوْٓا : اور تم گواہ رہو اَنِّىْ : بیشک میں بَرِيْٓءٌ : بیزار ہوں مِّمَّا : ان سے تُشْرِكُوْنَ : تم شریک کرتے ہو
ہم اس کے سوا کچھ نہیں کہتے کہ ہمارے معبودوں میں سے کسی نے تجھے کوئی آفت پہنچا دی ہے۔ اس نے کہا میں تو اللہ کو گواہ بناتا ہوں اور تم بھی گواہ رہو کہ بیشک میں اس سے بری ہوں جو تم شریک بناتے ہو۔
یہاں چار جملوں میں ہود ؑ کی قوم نے سخت ترین لفظوں میں انھیں جھٹلا کر ان پر ایمان لانے سے صاف انکار کردیا۔ پہلے جملے میں ان پر نبوت کی ایک بھی دلیل پیش نہ کرنے کا بہتان لگایا۔ دوسرے اور تیسرے جملے میں ”مَا“ نافیہ کی تاکید باء کے ساتھ کرکے کچھ بھی ہوجائے اپنے معبودوں کو چھوڑنے اور ہود ؑ پر ایمان لانے سے انکار کردیا۔ اِنْ نَّقُوْلُ اِلَّا اعْتَرٰىكَ بَعْضُ اٰلِهَتِنَا بِسُوْۗءٍ : یہ چوتھی بات ہے جو انھوں نے ہود ؑ کو جھٹلانے کے ساتھ مزید توہین اور مذاق کے لیے کہی۔ ”عَرَا یَعْرُوْ“ اور ”اِعْتَرٰی یَعْتَرِیْ“ پیش آنا، پہنچنا، باء کے ساتھ متعدی ہو کر پہنچانا کے معنی میں ہوگیا، یعنی ہمارے کسی ایک آدھ معبود نے تجھے کوئی آفت پہنچا دی ہے جو ایسی بہکی بہکی باتیں کر رہا ہے، اگر سب کی مار پڑجاتی تو معلوم نہیں تیرا کیا بنتا۔ افسوس ! یہی کسی بزرگ کی مار کا تصور آج مسلمانوں میں بھی آگیا ہے، حالانکہ مسلمانوں کا عقیدہ یہ ہونا چاہیے کہ اللہ کے سوا کوئی زندہ یا مردہ ہستی کسی کا کچھ نہ بگاڑ سکتی ہے نہ بنا سکتی ہے۔ قَالَ اِنِّىْٓ اُشْهِدُ اللّٰهَ۔۔ : یعنی میرا تمہارے ان بتوں سے اور اللہ کے سوا کسی معبود سے کوئی تعلق نہیں، بلکہ میں ہر آن ان کا انکار اور ان سے اظہار براءت کرتا ہوں۔ فَكِيْدُوْنِيْ جَمِيْعًا ثُمَّ لَا تُنْظِرُوْنِ : یعنی یہ جو تم کہتے ہو کہ تم پر ہمارے کسی معبود کی مار پڑگئی ہے تو ایک آدھ کے بجائے اگر تم اور تمہارے یہ سب معبود مل کر بھی میرا کچھ بگاڑ سکتے ہیں تو بگاڑ لیں اور مجھے ذرا مہلت نہ دیں، ورنہ جان لو کہ تم بھی جھوٹے اور تمہارے یہ معبود بھی غلط۔ ہود ؑ کا یہ کلام ان کی قوم کی دوسری فضول باتوں کے علاوہ اس بات کا بھی جواب ہے کہ تو ہمارے پاس کوئی واضح دلیل، یعنی معجزہ نہیں لایا۔ معجزہ اور نشانی کیا چیز ہے ؟ حقیقت یہ ہے کہ ہر معجزہ کی روح وہ چیلنج ہوتا ہے جو صاحب معجزہ کی طرف سے ہوتا ہے۔ مثلاً صالح ؑ کی اونٹنی، ابراہیم ؑ کا معجزہ ان کے لیے آگ کا گلزار بن جانا، مگر یہ معجزہ بھی کیا کم ہے کہ اکیلا شخص پوری قوم کو للکار رہا ہے کہ میں تم سب کو اور تمہارے خداؤں کو کچھ نہیں سمجھتا۔ تم سب مل کر میرا جو بگاڑ سکتے ہو بگاڑ لو اور اس قوم کو للکار رہا ہے جو نہایت سخت گیر اور رحم سے نا آشنا تھے، جن کے بارے میں آتا ہے : (وَاِذَا بَطَشْتُمْ بَطَشْتُمْ جَبَّارِيْنَ) [ الشعراء : 130] ”اور جب تم پکڑتے ہو تو بہت بےرحم ہو کر پکڑتے ہو۔“ خود اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ وہ اتنی قوت والے تھے کہ ان کے بعد ویسی قوم پیدا ہی نہیں کی گئی، فرمایا : (۽الَّتِيْ لَمْ يُخْلَقْ مِثْلُهَا فِي الْبِلَادِ) [ الفجر : 8 ] ”وہ کہ ان جیسا کوئی شہروں میں پیدا نہیں کیا گیا۔“ جب طوفان سے ہلاک ہوئے تو : (كَاَنَّهُمْ اَعْجَازُ نَخْلٍ خَاوِيَةٍ) [ الحاقۃ : 7 ] ”گویا وہ گری ہوئی کھجوروں کے تنے تھے۔“ صرف ایک شخص پوری قوم کو للکار رہا ہے، جو اس کے خون کی پیاسی ہے، جس کے معبودوں کو اور پوری قوم کو اس نے جاہل قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ سب مل کر میرے خلاف جو کچھ کرسکتے ہو کرلو اور پوری قوم باتیں تو بناتی ہے، مگر اس کا کچھ بگاڑ نہ سکی، یہ کھلا معجزہ نہیں تو کیا ہے ؟
Top