Al-Quran-al-Kareem - Hud : 57
فَاِنْ تَوَلَّوْا فَقَدْ اَبْلَغْتُكُمْ مَّاۤ اُرْسِلْتُ بِهٖۤ اِلَیْكُمْ١ؕ وَ یَسْتَخْلِفُ رَبِّیْ قَوْمًا غَیْرَكُمْ١ۚ وَ لَا تَضُرُّوْنَهٗ شَیْئًا١ؕ اِنَّ رَبِّیْ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ حَفِیْظٌ
فَاِنْ : پھر اگر تَوَلَّوْا : تم روگردانی کروگے فَقَدْ اَبْلَغْتُكُمْ : میں نے تمہیں پہنچا دیا مَّآ اُرْسِلْتُ : جو مجھے بھیجا گیا بِهٖٓ : اس کے ساتھ اِلَيْكُمْ : تمہاری طرف وَيَسْتَخْلِفُ : اور قائمقام کردے گا رَبِّيْ : میرا رب قَوْمًا : کوئی اور قوم غَيْرَكُمْ : تمہارے علاوہ وَلَا تَضُرُّوْنَهٗ : اور تم نہ بگاڑ سکو گے اس کا شَيْئًا : کچھ اِنَّ : بیشک رَبِّيْ : میرا رب عَلٰي : پر كُلِّ شَيْءٍ : ہر شے حَفِيْظٌ : نگہبان
پھر اگر تم پھر جاؤ تو بلاشبہ میں تمہیں وہ پیغام پہنچا چکا جسے دے کر مجھے تمہاری طرف بھیجا گیا ہے۔ اور میرا رب تمہارے سوا کسی اور قوم کو تمہاری جگہ لے آئے گا اور تم اس کا کچھ نقصان نہ کرو گے۔ بیشک میرا رب ہر چیز پر اچھی طرح نگہبان ہے۔
فَاِنْ تَوَلَّوْا فَقَدْ اَبْلَغْتُكُمْ مَّآ اُرْسِلْتُ بِهٖٓ اِلَيْكُمْ۔۔ : ”تَوَلَّوْا“ اصل میں ”تَتَوَلَّوْا“ تھا، لغت عرب میں کسی فعل کے شروع میں اگر دو ”تاء“ ہوں تو عموماً ایک کو حذف کردیتے ہیں۔ یعنی رسولوں کے بھیجنے کا مقصد یہ ہے کہ کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ مجھ تک اللہ کا پیغام نہیں پہنچا، اس لیے میں معذور ہوں، اب اگر تم نہ مانو تو بیشک نہ مانو، مگر میرا فریضہ پورا ہوگیا اور تمہارا عذر ختم ہوگیا۔ اب اللہ تعالیٰ کا یہ قاعدہ کہ ”وہ پیغام پہنچائے بغیر عذاب نہیں دیتا“ تمہارے لیے بہانہ نہیں بن سکتا۔ تمہارے نہ ماننے سے اللہ تعالیٰ کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ وہ تمہیں ختم کرکے تمہاری جگہ اور لوگ لے آئے گا اور تم اس کا کچھ نقصان نہ کرسکو گے۔ آگے اس کی مرضی ہے کہ تمہاری جگہ اچھے لوگ لائے، جیسا کہ فرمایا : (وَاِنْ تَتَوَلَّوْا يَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَيْرَكُمْ ۙ ثُمَّ لَا يَكُوْنُوْٓا اَمْثَالَكُمْ) [ محمد : 38 ] ”اور اگر تم پھر جاؤ گے تو وہ تمہاری جگہ تمہارے سوا اور لوگ لے آئے گا، پھر وہ تمہاری طرح نہیں ہوں گے۔“ اور یہ بھی اس کی مرضی ہے کہ چاہے تو مزید برے لوگ لے آئے، جیسا کہ بنی اسرائیل نے جب ارض مقدس میں فساد شروع کیا تو اللہ تعالیٰ نے انھیں سزا دینے کے لیے ان سے بھی برے بندے ان پر مسلط کردیے۔ دیکھیے سورة بنی اسرائیل (5 تا 7)۔ اِنَّ رَبِّيْ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ حَفِيْظٌ: یعنی جس طرح بعض جاہل فلسفی کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے کائنات کو پیدا کیا اور اس کے قوانین بنا دیے، اب وہ ان قوانین کے مطابق خود بخود چل رہی ہے، یہ بات بالکل غلط ہے۔ میرے رب نے کائنات کو پیدا کیا، پھر ”رب“ کا معنی ہی یہ ہے کہ تربیت اور پرورش بھی وہی کر رہا ہے۔ پھر حفیظ بھی وہی ہے۔ ہر چیز اس کی نگرانی میں چل رہی ہے۔ اس سے ان مشرکوں اور جاہل صوفیوں کا بھی رد ہوگیا جو کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا کرکے اس کا انتظام قطبوں، غوثوں اور اس قسم کے خود ساختہ ناموں والے ولیوں اور بزرگوں کے حوالے کردیا ہے، جو اس کو چلا رہے ہیں اور اس کی نگرانی کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اب فارغ ہے، اختیار اس نے اپنے پیاروں کو دے دیے ہیں۔ اللہ اکبر ! پہلی امتوں کے مشرکوں اور ہماری امت کے مشرکوں میں کس قدر مشابہت اور یک رنگی پائی جاتی ہے۔
Top