Al-Quran-al-Kareem - Hud : 61
وَ اِلٰى ثَمُوْدَ اَخَاهُمْ صٰلِحًا١ۘ قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗ١ؕ هُوَ اَنْشَاَكُمْ مِّنَ الْاَرْضِ وَ اسْتَعْمَرَكُمْ فِیْهَا فَاسْتَغْفِرُوْهُ ثُمَّ تُوْبُوْۤا اِلَیْهِ١ؕ اِنَّ رَبِّیْ قَرِیْبٌ مُّجِیْبٌ
وَ : اور اِلٰي ثَمُوْدَ : ثمود کی طرف اَخَاهُمْ : ان کا بھائی صٰلِحًا : صالح قَالَ : اس نے کہا يٰقَوْمِ : اے میری قوم اعْبُدُوا اللّٰهَ : اللہ کی عبادت کرو مَا : نہیں لَكُمْ : تمہارے لیے مِّنْ اِلٰهٍ : کوئی معبود غَيْرُهٗ : اس کے سوا هُوَ : وہ۔ اس اَنْشَاَكُمْ : پیدا کیا تمہیں مِّنَ الْاَرْضِ : زمین سے وَاسْتَعْمَرَكُمْ : اور بسایا تمہیں فِيْهَا : اس میں فَاسْتَغْفِرُوْهُ : سو اس سے بخشش مانگو ثُمَّ : پھر تُوْبُوْٓا اِلَيْهِ : رجوع کرو اس کی طرف (توبہ کرو اِنَّ : بیشک رَبِّيْ : میرا رب قَرِيْبٌ : نزدیک مُّجِيْبٌ : قبول کرنے والا
اور ثمود کی طرف ان کے بھائی صالح کو (بھیجا) ، اس نے کہا اے میری قوم ! اللہ کی عبادت کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں، اسی نے تمہیں زمین سے پیدا کیا اور تمہیں اس میں آباد کیا، سو اس سے بخشش مانگو، پھر اس کی طرف پلٹ آؤ، یقینا میرا رب قریب ہے، قبول کرنے والا ہے۔
وَاِلٰي ثَمُوْدَ اَخَاهُمْ صٰلِحًا : قوم ثمود مقام حجر (حاء کے کسرہ کے ساتھ) میں رہتے تھے۔ یہ جگہ حجاز اور شام کے درمیان وادی القریٰ تک پھیلی ہوئی ہے۔ آج کل یہ علاقہ مدینہ اور تبوک کے درمیان ہے، جہاں ابھی تک ان لوگوں کے پہاڑوں کے اندر تراش کر بنائے ہوئے مکانات، جن میں وہ رہتے تھے، موجود ہیں اور یہ علاقہ مدائن صالح کہلاتا ہے۔ صالح ؑ کا قبیلہ عرب قبیلہ تھا۔ رسول اللہ ﷺ تبوک (شام) کی طرف جاتے ہوئے یہاں سے گزرے تھے۔ عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ (وادی) حجر میں تھے تو فرمایا : (لاَ تَدْخُلُوْا عَلٰی ھٰؤُلاَءِ الْقَوْمِ الْمُعَذَّبِیْنَ أَصْحَابِ الْحِجْرِ إِلاَّ أَنْ تَکُوْنُوْا بَاکِیْنَ ، فَإِنْ لَّمْ تَکُوْنُوْا بَاکِیْنَ فَلاَ تَدْخُلُوْا عَلَیْہِمْ أَنْ یُّصِیْبَکُمْ مَا أَصَابَھُمْ) ”ان عذاب دیے ہوئے لوگوں یعنی اصحاب حجر پر مت داخل ہو، مگر ایسی حالت میں کہ تم رونے والے ہو، اگر تمہیں رونا نہ آئے تو ان پر داخل نہ ہونا، کہیں تمہیں بھی اس جیسا عذاب نہ آپہنچے جو ان کو پہنچا تھا۔“ [ مسند أحمد : 2؍58، ح : 5224، و صححہ شعیب الأرنؤوط و الألبانی ] قوم ثمود کا قصہ سورة اعراف، شعراء، نحل اور قمر وغیرہ میں بھی مذکور ہے۔ ”اَخَاهُمْ صٰلِحًا“ کا مطلب یہ ہے کہ وہ اسی قبیلے کے فرد تھے، اس لیے ان کے خیر خواہ، ان کے مزاجوں کو سمجھنے والے اور ان میں مدت تک رہنے والے تھے۔ قَالَ يٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ۔۔ : ان کی دعوت بھی وہی دعوت توحید تھی جو تمام انبیاء کی دعوت تھی۔ هُوَ اَنْشَاَكُمْ مِّنَ الْاَرْضِ۔۔ : ”اِنْشَاءٌ“ کا معنی نئی چیز بنانا ہے۔ ”ِاسْتَعْمَرَكُمْ“ ”عَمَرَ یَعْمُرُ“ کسی جگہ کو آباد کرنا، سورة روم میں فرمایا : (وَعَمَرُوْهَآ اَكْثَرَ مِمَّا عَمَرُوْهَا) [ الروم : 9 ] ”اور انھوں نے اسے آباد کیا اس سے زیادہ جو انھوں نے اسے آباد کیا۔“ ”أَعْمَرَ یُعْمِرُ“ باب افعال کسی شخص کو کسی جگہ میں آباد کرنا۔ ”اِسْتَعْمَرَ“ میں حروف زائد ہیں، یعنی کسی کو کسی جگہ میں خوب آباد کرنا۔ صالح ؑ ان الفاظ کے ساتھ انھیں اللہ تعالیٰ کی توحید اور صرف اسی کے معبود برحق ہونے کی دلیل دے رہے ہیں کہ اسی نے تمہیں زمین سے پیدا کیا، زمین کو بھی اسی نے بنایا، تمہاری ضرورت کی ہر چیز زمین سے اسی نے پیدا کی، اپنی زمین پر اس نے تمہیں خوب آباد کیا، پہاڑوں کو تراشنے کی صلاحیت اور عقل عطا فرمائی، نہایت ترقی یافتہ زراعت اور اس کے اسباب، زرخیز زمین اور چشمے عطا فرمائے۔ دیکھیے سورة شعراء (141 تا 150) اب تک اس کی جو ناشکری اور اس کے ساتھ شرک کرچکے ہو اس کی معافی مانگ کر اس پر ایمان لے آؤ اور آئندہ کے لیے اس کے ساتھ کفر و شرک سے توبہ کرو۔ ساتھ ہی ان کے سامنے اللہ تعالیٰ کی رحمت کا دروازہ کھلا ہونے کی امید دلانے کے لیے رب تعالیٰ کی دو صفات بیان کیں کہ وہ ”قریب“ بھی ہے اور ”مجیب“ بھی۔ کوئی اسے پکارے تو اسے کسی واسطے کی ضرورت نہیں۔ آہستہ پکارے یا بلند آواز سے، اکیلا پکارے یا مجلس میں، میرا رب قریب بھی ہے اور قبول کرنے والا بھی۔ جب اس کے سوا یہ اوصاف کسی میں بھی نہیں تو کسی اور کی عبادت کیوں ؟
Top