Al-Quran-al-Kareem - Hud : 70
فَلَمَّا رَاٰۤ اَیْدِیَهُمْ لَا تَصِلُ اِلَیْهِ نَكِرَهُمْ وَ اَوْجَسَ مِنْهُمْ خِیْفَةً١ؕ قَالُوْا لَا تَخَفْ اِنَّاۤ اُرْسِلْنَاۤ اِلٰى قَوْمِ لُوْطٍؕ
فَلَمَّا : پھر جب رَآٰ اَيْدِيَهُمْ : اس نے دیکھے ان کے ہاتھ لَا تَصِلُ : نہیں پہنچتے اِلَيْهِ : اس کی طرف نَكِرَهُمْ : وہ ان سے ڈرا وَاَوْجَسَ : اور محسوس کیا مِنْهُمْ : ان سے خِيْفَةً : خوف قَالُوْا : وہ بولے لَا تَخَفْ : تم ڈرو مت اِنَّآ اُرْسِلْنَآ : بیشک ہم بھیجے گئے ہیں اِلٰي : طرف قَوْمِ لُوْطٍ : قوم لوط
تو جب ان کے ہاتھوں کو دیکھا کہ اس کی طرف نہیں پہنچتے تو انھیں اوپرا جانا اور ان سے ایک قسم کا خوف محسوس کیا، انھوں نے کہا نہ ڈر ! بیشک ہم لوط کی قوم کی طرف بھیجے گئے ہیں۔
فَلَمَّا رَآٰ اَيْدِيَهُمْ لَا تَصِلُ اِلَيْهِ نَكِرَهُمْ۔۔ : ابراہیم ؑ نے صرف کھانا پیش ہی نہیں کیا بلکہ انھیں کھانے کے لیے اصرار بھی کیا : (قَالَ اَلَا تَاْكُلُوْنَ) [ الذاریات : 27 ] ”فرمایا کیا تم کھاتے نہیں ہو ؟“ پھر بھی جب انھوں نے کھانے کی طرف ہاتھ نہیں بڑھایا تو دل میں ایک قسم کا خوف محسوس کیا۔ ”خِيْفَةً“ کی تنوین کی وجہ سے ”ایک قسم کا خوف“ ترجمہ کیا گیا ہے۔ خوف کی وجہ یہ تھی کہ ان کے علاقے میں اگر کوئی اجنبی آتا اور وہ مہمانی میں پیش کیا ہوا کھانا قبول نہ کرتا تو اس کے متعلق سمجھا جاتا کہ وہ کسی برے ارادے سے آیا ہے، یا یہ بھی ہوسکتا ہے اور شاید یہی زیادہ موقع کے مناسب ہے کہ ابراہیم ؑ اور ان کی بیوی نے ان کے کھانا تناول نہ کرنے کی وجہ سے ان کے فرشتے ہونے کو بھانپ لیا ہو اور وہ اس بنا پر ڈر گئے ہوں کہ یہ ان کی بستی پر عذاب کے لیے بھیجے گئے ہیں۔ (شوکانی) فرشتوں نے ان کے خوف کو بھانپ لیا، بلکہ سورة حجر (52) میں ہے کہ ابراہیم ؑ نے صاف کہہ دیا : (اِنَّا مِنْكُمْ وَجِلُوْنَ) ”ہم تو تم سے خوف زدہ ہیں۔“ قَالُوْا لَا تَخَفْ اِنَّآ اُرْسِلْنَآ اِلٰي قَوْمِ لُوْطٍ : فرشتوں نے کہا، آپ مت ڈریں، ہمیں (آپ کی بستی پر نہیں بلکہ) لوط ؑ کی قوم پر عذاب کے لیے بھیجا گیا ہے۔ اس سے انبیائے کرام ؑ کے عالم الغیب ہونے کی اور ان کے کائنات پر اختیار رکھنے کی صاف نفی ہو رہی ہے۔
Top