Al-Quran-al-Kareem - Hud : 72
قَالَتْ یٰوَیْلَتٰۤى ءَاَلِدُ وَ اَنَا عَجُوْزٌ وَّ هٰذَا بَعْلِیْ شَیْخًا١ؕ اِنَّ هٰذَا لَشَیْءٌ عَجِیْبٌ
قَالَتْ : وہ بولی يٰوَيْلَتٰٓى : اے خرابی (اے ہے) ءَاَلِدُ : کیا میرے بچہ ہوگا وَاَنَا : حالانکہ میں عَجُوْزٌ : بڑھیا وَّھٰذَا : اور یہ بَعْلِيْ : میرا خاوند شَيْخًا : بوڑھا اِنَّ : بیشک ھٰذَا : یہ لَشَيْءٌ : ایک چیز (بات) عَجِيْبٌ : عجیب
اس نے کہا ہائے میری بربادی ! کیا میں جنوں گی، جب کہ میں بوڑھی ہوں اور یہ میرا خاوند ہے بوڑھا، یقینا یہ تو ایک عجیب چیز ہے۔
قَالَتْ يٰوَيْلَتٰٓى : امام طبری ؓ نے فرمایا کہ ”یَا وَیْلَتَا“ کا کلمہ عرب کسی چیز پر تعجب اور اسے انوکھا سمجھنے کے وقت بولتے ہیں، چناچہ تعجب کے وقت کہتے ہیں : ”وَیْلُ أُمِّہِ مَا أَرْجَلَہُ“ ”اس کی ماں ہلاک ہو، وہ کس قدر مرد ہے۔“ باقی الف کے متعلق طبری کا فیصلہ یہ ہے کہ یہ الف ”ندبہ“ کا ہے اور تاء کا اضافہ اس لیے کیا گیا ہے کہ ”وَیْلٌ“ کے بعد والا الف ندبہ اتنا واضح اور لمبا نہیں ہوسکتا جتنا درمیان میں تاء کے اضافے سے ہوسکتا ہے۔ ءَاَلِدُ وَاَنَا عَجُوْزٌ۔۔ : پہلی خوش خبری کا رد عمل وہ ہنسی تھی جو سارہ[ کے چہرے پر نمودار ہوئی، اب ایک ایسی چیز کی خوش خبری ملی جو ساری زندگی کی آرزو کا خلاصہ تھی اور اس وقت ملی جب دنیاوی اسباب کے لحاظ سے اس کی امید ہی نہ تھی تو سارہ[ کی ہنسی حیرت اور دہشت میں بدل گئی۔ کہا کیا ایسا ہوگا کہ میرے ہاں بچہ ہوگا ؟ جب کہ میں بڑھیا ہوں اور یہ میرا خاوند بھی بوڑھا ہے، یقیناً یہ تو ایک عجیب چیز ہے۔ یہ خوش خبری فرشتوں نے ابراہیم ؑ کو بھی دی تھی، جیسا کہ سورة ذاریات میں ہے : (ۭ وَبَشَّرُوْهُ بِغُلٰمٍ عَلِيْمٍ) [ الذاریات : 28 ] ”اور انھوں نے اسے (ابراہیم ؑ کو ایک بہت علم والے لڑکے کی خوش خبری دی۔“ مگر یہاں خصوصاً ان کی بیوی کو خوش خبری دینے اور ان سے گفتگو کا ذکر کیا ہے، کیونکہ ابراہیم ؑ کے ہاں تو ہاجرہ[ سے اسماعیل پیدا ہوچکے تھے، لیکن سارہ[ ابھی تک بےاولاد تھیں۔ قدیم مفسرین اور اسرائیلی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت ابراہیم ؑ کی عمر سو سال اور سارہ[ کی عمر نوے سال تھی، مگر حقیقت یہ ہے کہ ان دونوں کی عمر کے تعین کا کوئی بااعتماد ذریعہ ہمارے پاس نہیں۔ اللہ تعالیٰ کا بیان سارہ[ کا ”عَجُوْزٌ“ ہونا اور ان کے خاوند کا ”شَیْخاً“ ہونا ہی ”لَشَيْءٌ عَجِيْبٌ“ سمجھنے کے لیے کافی ہے، ورنہ اللہ تعالیٰ ضرور ان کی عمر بھی بیان فرما دیتا۔ یہ آیت دلیل ہے کہ ذبیح اسماعیل ؑ تھے، کیونکہ اسحاق ؑ کی خوش خبری کے ساتھ ہی یعقوب پوتے کی خوش خبری بھی تھی، ان کے ذبح کے حکم کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ (قرطبی)
Top