Al-Quran-al-Kareem - Hud : 80
قَالَ لَوْ اَنَّ لِیْ بِكُمْ قُوَّةً اَوْ اٰوِیْۤ اِلٰى رُكْنٍ شَدِیْدٍ
قَالَ : اس نے کہا لَوْ اَنَّ : کاش کہ لِيْ : میرے لیے (میرا) بِكُمْ : تم پر قُوَّةً : کوئی زور اَوْ اٰوِيْٓ : یا میں پناہ لیتا اِلٰي : طرف رُكْنٍ شَدِيْدٍ : مضبوط پایہ
اس نے کہا کاش ! واقعی میرے پاس تمہارے مقابلہ کی کچھ طاقت ہوتی، یا میں کسی مضبوط سہارے کی پناہ لیتا۔
قَالَ لَوْ اَنَّ لِيْ بِكُمْ قُوَّةً۔۔ : لوط ؑ اس قوم میں ایک طرح سے اجنبی تھے، اللہ تعالیٰ نے انھیں اہل سدوم کی اصلاح کے لیے مقرر فرمایا تھا۔ اس وجہ سے انھوں نے اس تمنا کا اظہار کیا کہ کاش ! مجھ میں تمہارے مقابلے کی قوت ہوتی، یا میں کسی مضبوط سہارے کی پناہ لیتا، یعنی میرا خاندان یہاں ہوتا تو میں تم سے نمٹ لیتا۔ ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (یَرْحَمُ اللّٰہُ لُوْطًا لَقَدْ کَانَ یَأْوِيْ إِلٰی رُکْنٍ شَدِیْدٍ) [ بخاری، أحادیث الأنبیاء، باب قولہ عزو جل : (و نبءھم عن ضیف إبراہیم): 3372 ] ”اللہ تعالیٰ لوط پر رحم کرے، یقیناً وہ بہت مضبوط سہارے کی پناہ رکھتے تھے۔“ یعنی وہ اللہ تعالیٰ کا سہارا رکھتے تھے جو سب سے مضبوط ہے اور اس وقت ان کے پاس فرشتوں کی شکل میں بھی مضبوط سہارا موجود تھا، اگرچہ انھیں معلوم نہ تھا۔ حافظ ابن حزم ؓ نے ”اَلْفِصَلُ فِی الْمِلَلِ“ میں کہا کہ رسول اللہ ﷺ کے اس فرمان میں لوط ؑ کی شان میں کمی کی کوئی بات نہیں، کیونکہ اسباب کا مہیا کرنا یا ان کی خواہش کرنا اللہ تعالیٰ پر توکل کے خلاف نہیں ہے۔ لوط ؑ یقیناً اللہ تعالیٰ کو اپنا سہارا سمجھتے تھے مگر اس وقت وہ ساتھی مہیا ہونے کی صورت میں فوری طور پر اس خبیث قوم کا راستہ قوت بازو کے ساتھ روکنے کے خواہش مند تھے۔ خود رسول اللہ ﷺ نے کئی لوگوں اور قبیلوں سے کہا کہ کون میری مدد کرتا اور مجھے جگہ دیتا ہے کہ میں اپنے رب کا پیغام پہنچاؤں۔ آخر کار انصار مدینہ نے آپ کی دعوت پر لبیک کہا اور اپنی جان و مال اور اولاد کی طرح آپ کی حفاظت اور آپ کا دفاع کیا اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُوْنُوْٓا اَنْصَار اللّٰهِ كَمَا قَالَ عِيْسَى ابْنُ مَرْيَمَ لِلْحَوَارِيّٖنَ مَنْ اَنْصَارِيْٓ اِلَى اللّٰهِ ۭ قَالَ الْحَــوَارِيُّوْنَ نَحْنُ اَنْصَار اللّٰهِ) [ الصف : 14 ] ”اے لوگو جو ایمان لائے ہو ! اللہ کے مددگار بن جاؤ، جس طرح عیسیٰ ابن مریم نے حواریوں سے کہا اللہ کی طرف میرے مددگار کون ہیں ؟ حواریوں نے کہا ہم اللہ کے مددگار ہیں۔“ اس لیے دنیاوی اسباب مہیا ہونے کی کوشش و خواہش جائز بلکہ مستحب ہے۔ ابوہریرہ ؓ ہی سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (فَمَا بَعَثَ اللّٰہُ بَعْدَہُ مِنْ نَبِيٍّ اِلَّا فِيْ ثَرْوَۃٍ مِنْ قَوْمِہِ) [ السلسلۃ الصحیحۃ : 4؍152، ح : 1617 ] ”پھر لوط ؑ کے بعد اللہ نے جو نبی بھی بھیجا وہ اس کی قوم کے کثیر لوگوں میں سے بھیجا۔“
Top