Al-Quran-al-Kareem - Hud : 96
وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا مُوْسٰى بِاٰیٰتِنَا وَ سُلْطٰنٍ مُّبِیْنٍۙ
وَ : اور لَقَدْ اَرْسَلْنَا : ہم نے بھیجا مُوْسٰى : موسیٰ بِاٰيٰتِنَا : اپنی نشانیوں کے ساتھ وَ : اور سُلْطٰنٍ : دلیل مُّبِيْنٍ : روشن
اور بلاشبہ یقینا ہم نے موسیٰ کو اپنی نشانیاں اور واضح دلیل دے کر بھیجا۔
وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا مُوْسٰى بِاٰيٰتِنَا وَسُلْطٰنٍ مُّبِيْنٍ : اللہ تعالیٰ نے موسیٰ ؑ کو فرعون اور اس کے سرداروں کی طرف اپنی جو آیات اور ”سُلْطٰنٍ مُّبِيْنٍ“ (واضح دلیل) دے کر بھیجا تھا، ان سے کیا مراد ہے ؟ اس کا ایک جواب تو یہ ہے کہ موسیٰ ؑ کو اللہ تعالیٰ نے نو آیات بینات دی تھیں (دیکھیے بنی اسرائیل : 101) جو وقتاً فوقتاً ظاہر ہوئیں : 1 عصائے موسیٰ 2 ید بیضا 3 سنین (قحط سالیاں) 4 نقص من الثمرات 5 طوفان 6 جراد 7 قمل 8 ضفادع 9 دم انھی کو ”سُلْطٰنٍ مُّبِيْنٍ“ کہا گیا ہے۔ واؤ ہمیشہ مغایرت کے لیے نہیں ہوتی، جیسا کہ سورة عصر میں فرمایا : (اِلَّا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَتَوَاصَوْا بالْحَقِّ ڏ وَتَوَاصَوْا بالصَّبْر) اس میں ہر بعد والی چیز اپنے سے پہلے والی تمام چیزوں میں داخل اور اس کا حصہ ہے۔ ایک جواب یہ ہے کہ ”سُلْطٰنٍ مُّبِيْنٍ“ سے مراد عصائے موسیٰ اور ید بیضا ہیں، جو سب سے پہلے موسیٰ ؑ نے فرعون کے سامنے اپنی نبوت کی دلیل کے طور پر پیش کیے۔ ان کی خصوصیت کے پیش نظر انھیں علیحدہ بھی ذکر فرمایا، حالانکہ یہ آیات میں داخل تھے اور ایک جواب یہ کہ ”سُلْطٰنٍ مُّبِيْنٍ“ سے مراد اللہ تعالیٰ کا وہ پیغام ہے جو موسیٰ اور ہارون ؑ فرعون کے پاس لے کر گئے اور وہ عقلی اور فطری دلائل ہیں جو لاٹھی پھینکنے سے پہلے موسیٰ ؑ نے فرعون سے بحث کے دوران پیش فرمائے اور وہ ان دلائل سے لاجواب ہو کر قید کی دھمکی دینے لگا اور معجزے کا مطالبہ کرنے لگا۔ دیکھیے سورة طٰہٰ (47 تا 55) اور شعراء (15 تا 29) یہ تینوں تفسیریں صحیح ہیں۔ بعض حضرات نے ”بِاٰیٰتِنَا“ سے مراد نو معجزے اور ”سُلْطٰنٍ مُّبِيْنٍ“ سے مراد تورات بیان کی ہے، مگر تورات تو فرعون کے غرق ہونے کے بعد نازل ہوئی، اس لیے یہ تفسیر صحیح نہیں۔
Top