Maarif-ul-Quran - Hud : 3
وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یُّجَادِلُ فِی اللّٰهِ بِغَیْرِ عِلْمٍ وَّ یَتَّبِعُ كُلَّ شَیْطٰنٍ مَّرِیْدٍۙ
وَ : اور مِنَ النَّاسِ : کچھ لوگ جو مَنْ : جو يُّجَادِلُ : جھگڑا کرتے ہیں فِي اللّٰهِ : اللہ (کے بارے) میں بِغَيْرِ عِلْمٍ : بےجانے بوجھے وَّيَتَّبِعُ : اور پیروی کرتے ہیں كُلَّ شَيْطٰنٍ : ہر شیطان مَّرِيْدٍ : سرکش
اور بعض لوگ ایسے ہیں جو خدا (کی شان) میں علم (و دانش) کے بغیر جھگڑتے ہیں اور ہر شیطان سرکش پیروی کرتے ہیں
اثبات حشر و نشر وابطال شبہات مجادلین و منکرین قیامت قال اللہ تعالیٰ ومن الناس من یجادل فی اللہ بغیر علم .... الیٰ .... وان اللہ لیس بظلام للعبید۔ (ربط) گزشتہ آیات میں تقویٰ کی تاکید اور قیامت کے بعض احوال اور اہوال کا ذکر فرمایا اب ان آیات میں اور لوگوں کی مذمت کرتے ہیں جو قیامت کے منکر ہیں اور قیامت اور قرآن کے بارے میں جہالت سے بغیر علم اور بغیر دلیل کے جھگڑا کرتے ہیں۔ بعد ازاں حشر و نشر کا اثبات اور منکرین قیامت کے شبہات کا ابطال فرماتے ہیں چناچہ فرماتے ہیں اور لوگوں میں بعض ایسے بھی ہیں کہ جو اللہ کے بارے میں یعنی اس کی شان میں اور اس کی قدرت میں بدون کسی علم کے جھگڑتے ہیں یہ نصر بن حادث کا حال ہے کہ جو آنحضرت ﷺ سے کبھی کتاب الٰہی کے بارے میں کہتا ان ھذا الا اساطیر الاولین۔ کہ یہ قرآن تو اگلوں کا افسانہ ہے اور کبھی توحید کے بارے میں جھگڑتا اور کہتا کہ فرشتے اللہ کی بیٹیاں ہیں اور کبھی اللہ کی قدرت کے بارے میں جھگڑتا اور کہتا کہ جب انسان مر کر اور گل سڑ کر مٹی ہوگیا تو پھر کیسے زندہ ہوگا اور ایسے شخص کے پاس دلیل کوئی نہیں صرف شیطان سرکش کی پیروی کرتا ہے۔ شیطان اس کے دل میں وسوسے ڈالتا ہے اور بےدلیل اس کو مان لیتا ہے اور انبیاء دلائل عقلیہ وبراہین قطعیہ بیان کرتے ہیں تو ان میں بےدلیل جھگڑا لگاتا ہے اور شیطان کی پیروی کرتا ہے جس کی نسبت قضائے الٰہی میں یہ لکھا جا چکا ہے کہ جو شخص شیطان کو دوست بنائے گا تو شیطان اس کو ضرور گمراہ کرے گا۔ اور عذاب دوزخ کی راہ پر اس کو لگا دے گا۔ غرض یہ کہ اس نادان کا گمان یہ تھا کہ قیامت اور حشر و نشر سب محال ہے اس لیے آئندہ آیات میں اثبات معاد کی دو دلیں بیان فرماتے ہیں۔ دلیل اول اے لوگو اگر مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہونے کے بارے میں تم شک اور تردد میں پڑے ہوئے ہو اور دوبارہ زندہ ہونے کو ناممکن اور محال سمجھتے ہو تو حق تعالیٰ کی دلیل قدرت میں ذرا غور کرلو اور پہلے اپنے حال پر نظر کرو۔ تحقیق ہم نے تم کو مٹی سے پیدا کیا یعنی تمہاری اصل خلقت مٹی سے ہے اس لیے کہ آدم (علیہ السلام) جو سب کی اصل ہیں وہ مٹی سے پیدا ہوئے پھر پیدائش آدم (علیہ السلام) کے بعد جب سلسلہ توالد و تناسل ضاری ہوا تو مرتبہ دوم میں ہم نے تم کو نطفہ سے۔ پھر مرتبہ سوم میں جمے ہوئے خون سے۔ پھر مرتبہ چہارم میں ایسے پارہ گوشت سے کہ کبھی اس کی پوری صورت بن جاتی ہے جس میں کوئی عیب اور نقصان نہیں رہتا اور کبھی پوری صورت نہیں جنتی جو ایام پورا ہونے سے پہلے ہی گر جاتا ہے۔ پس ہم نے تم کو اس ترتیب و تدریج کے ساتھ پیدا کیا تاکہ ہم تم پر اپنی کمال قدرت ظاہر کریں کہ تم پہلی بار کی خلقت سے دوسری بار کی خلقت کو سمجھ سکو۔ کہ جو چیز پہلی بار تغیر اور تکون کو قبول کرسکتی ہے وہ دوسری بار بھی اسے قبول کرسکتی ہے اور جان لو کہ یہ سب قادر مطلق کی صنعت اور کاریگری ہے کسی مادہ اور طبیعت کا اقتضا نہیں۔ اور پھر ایک مدت مقررہ تک جس کو چاہتے ہیں رحم مادر سے ٹھہرائے رکھتے ہیں اس کو وقت سے پہلے گرنے نہیں دیتے اور جس کو ٹھہرانا نہیں چاہتے اس کو گرا دیتے ہیں پھر اس مدت معینہ کے بعد تم کو بچہ بنا کر ماں کے پیٹ سے نکالتے ہیں۔ پھر ہم تم کو پالتے ہیں تاکہ تم اپنی کمال قدرت کو پہنچ جاؤ یعنی جوانی کو پہنچ جاؤ اور تم میں سے بعض وہ ہے جو بڑا ہونے سے پہلے ہی مرجاتا ہے اور کوئی تم میں سے نکمی عمر کی طرف لوٹا دیا جاتا ہے تاکہ جاننے پہچاننے کے بعد انجان اور بیخبر بن جائے یعنی ہوش و حواس میں فتور آجائے اور جیسا بچپن میں قلیل العلم اور قلیل الفہم تھا ویسا ہی پھر ہوجائے اور جاننے کے بعد کچھ نہ جانے پس جو خدا ایک انسان پر اس قدر مختلف حالتیں طاری کرسکتا ہے اور اخیر میں انتہاء کے بعد پھر ابتداء کی طرف لوٹا سکتا ہے تو کیا وہ گلی سڑی ہڈیوں کو دوبارہ پیدا نہیں کرسکتا۔ یہ بعث بعد الموت کی ایک دلیل ہوئی اب آئندہ آیت میں دوسری دلیل بیان کرتے ہیں کہ جس طرح اللہ تعالیٰ مردہ زمین کو زندہ اور تروتازہ کرنے پر قادر ہے۔ اسی طرح وہ مردوں کو زندہ کرنے پر بھی قدرت رکھتا ہے۔ دوسری دلیل اور اگر ان منکرین قیامت کا یہ گمان ہے کہ انسان کی پیدائش میں جس قدر تغیرات اور انقلابات پیش آتے ہیں وہ سب شکم مادر میں ہیں شکم قبر میں یہ تغیرات اور انقلابات نہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ اے مخاطب تو زمین کو مردہ کی طرح خشک اور بےرونق دیکھتا ہے کہ عرصہ تک بجھی ہوئی آگ کی طرح خشک پڑی رہتی ہے جس میں سبزہ کا کہیں نام و نشان نہیں ہوتا۔ اس طرح قبر میں ردہ بھی خشک پڑا رہتا ہے پھر جب کچھ عرصہ بعد ہم اس پر پانی برساتے ہیں تو اس خشک زمین کی قوت نامیہ جوش میں آجاتی ہے اور سبزہ سے لہلہانے لگتی ہے اور پھولنے لگتی ہے۔ اور ولادت حمل کی طرح طرح خروج نباتات کے آثار ظاہر ہونے لگتے ہیں گویا کہ زمانہ ولادت قریب آگیا ہے اور پھر باذن الٰہی ہر قسم کے تروتازہ اور خوشمنا چیز اگاتی ہے جس طرح بطن مادر سے ایک خوشنما بچہ نمودار ہوتا ہے پس جو خدا اس طرح مردہ زمین کے زندہ کرنے پر قادر ہے تو کیا وہ اس پر قادر نہیں کہ مردوں کے اجزاء متفرقہ کو جمع کرکے پھر اسی حال پر لے آئے جس پر وہ پہلے تھا کیا یہ تخم نطفہ شجر نطفہ کے مشابہ نہیں کہ جب یہ تخم زمین میں ڈال دیا جاتا ہے تو گل سڑ کر ریزہ ریزہ ہوجاتا ہے اور پھر بعد چندے خوشنما ہو کر زمین سے نکل آتا ہے جس طرح نطفہ سے بچہ پیدا ہونے کے لیے ایک وقت مقرر ہے اسی طرح تخم ریزی کے بعد روئیدگی کے لیے بھی ایک وقت بہتر ہے۔ یہاں تک دونوں دلیلیں ختم ہوئیں اب آئندہ آیت میں ان دونوں دلیلوں کا نتیجہ ذکر فرماتے ہیں۔ اور وہ پانچ باتیں ہیں۔ (اول) یہ سب جو ابتداء خلقت انسان سے احیاء زمین تک ہوا۔ اس کی وجہ اور سبب یہ ہے کہ تم جان لو کہ اللہ جو ہے وہی حق ہے یعنی خدائے برحق وہ ہے کہ جس کی قدرت کاملہ سے یہ سب کچھ ہو رہا ہے۔ (دوم) اور یہ کہ تحقیق وہی مردوں کو زندہ کرتا ہے جیسا کہ نطفہ کو اور مردہ زمین کو زندہ کرنا۔ تمہاری نظروں کے سامنے ہے جو اس بات کے دلیل ہے کہ موت اور حیات اس کے قبضہ قدرت میں ہے۔ (سوم) اور یہ کہ وہ بلاشبہ ہر چیز پر قادر ہے اس کی قدرت مردہ زمین کے ساتھ مخصوص نہیں وہ تمام ممکنات پر قادر ہے۔ (چہارم) اور یہ کہ بلاشبہ قیامت آنیوالی ہے یعنی اس زندگی کے بعد دوسری آنے والی ہے جس میں کچھ شک نہیں۔ (پنجم) اور یہ کہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو زندہ کرکے اٹھائے گا جو قبروں میں مدفون ہیں اور اس دوبارہ زندہ ہونے کا نام بعث بعد الموت ہے غرض یہ کہ ان دلائل سے بخوبی یہ ثابت ہوگیا کہ قیامت کا آنا حق ہے ضرور آئیگی اس کے آنے میں ذرا شک نہیں اور باوجود ان دلائل واضحہ کے لوگوں میں سے وہ شخص بھی ہے کہ جو اللہ کی قدرت قاہرہ اور حکومت باہرہ میں بغیر علم کے اور بغیر ہدایت کے اور بغیر روشن کتاب کے جھگڑتا ہے یعنی بعض ایسے کج فہم اور ضدی اور عنادی ہیں کہ ان واضح اور روشن دلائل سننے کے بعد بھی اللہ کی باتوں میں جھگڑتے ہیں۔ نہ ان کے پاس علم اور عقل ہے اور نہ کوئی ہدایت اور عقلی دلیل ہے اور نہ کوئی نقلی دلیل ہے کہ جو آسمانی کتاب سے پیش کرسکے اور اس کج رو اور بےعقل کی حالت یہ ہے کہ متکبر اور مغرور ہے اپنی گردن اور شانہ کو موڑ کر جھگڑیا ہے جیسا کہ متکبروں کا طریقہ ہے کہ شانہ اور گردن کو موڑ کر گفتگو کیا کرتے ہیں اور عرض اس کی یہ ہے کہ اس قسم کی بےسروپا باتوں سے لوگوں کو اللہ کی راہ سے ہٹا دے۔ جیسے خود گمراہ ہے اسی طرح دوسروں کو بھی گمراہ کرنا چاہتا ہے۔ ایسے شخص کے لیے دنیا میں رسوائی ہے۔ دنیا کی ذلت و خواری اس کے تکبر اور غرور کی سزا ہے کیونکہ اس کا اکبر ہم اور مبلغ علم یہی دنیا تھی اس لیے اس دنیا میں اس کو ذلیل کیا اور قیامت کے تکبر اور غرور کی سزا ہے کیونکہ اسکا اکبر ہم اور مبلغ علم یہی دینا تھی اس لیے اس دنیا میں اس کو ذلیل کیا اور قیامت کے دن ہم اس کو جلتی آگ کا عذاب چکھائیں گے اور اس وقت ہم اس سے یہ کہیں گے کہ یہ عذاب تیرے ان اعمال کی سزا ہے جن کو تیرے ہاتھ آگے بھیج چکے ہیں اور اس وجہ سے کہ اللہ بندوں پر بالکل ظلم کرنے والا نہیں۔ بغیر جرم کے کسی کو سزا نہیں دیتے اور مغرور اور متکبر مجرم کو بغیر سزا دئیے نہیں چھوڑتے یہ آیت بھی نضربن حادث کے بارے میں ہے۔ بدر کے دن وہ مارا گیا اور کنوئیں میں ڈال دیا گیا۔ یہ دنیا کی رسوائی تھی اور آخرت کی رسوائی اس کے علاوہ ہے۔
Top