Al-Quran-al-Kareem - Ar-Ra'd : 13
وَ یُسَبِّحُ الرَّعْدُ بِحَمْدِهٖ وَ الْمَلٰٓئِكَةُ مِنْ خِیْفَتِهٖ١ۚ وَ یُرْسِلُ الصَّوَاعِقَ فَیُصِیْبُ بِهَا مَنْ یَّشَآءُ وَ هُمْ یُجَادِلُوْنَ فِی اللّٰهِ١ۚ وَ هُوَ شَدِیْدُ الْمِحَالِؕ
وَيُسَبِّحُ : اور پاکیزگی بیان کرتی ہے الرَّعْدُ : گرج بِحَمْدِهٖ : اسکی تعریف کے ساتھ وَالْمَلٰٓئِكَةُ : اور فرشتے مِنْ : سے خِيْفَتِهٖ : اس کے ڈر سے وَيُرْسِلُ : اور وہ بھیجتا ہے الصَّوَاعِقَ : گرجنے والی بجلیاں فَيُصِيْبُ : پھر گراتا ہے بِهَا : اسے مَنْ : جس يَّشَآءُ : وہ چاہتا ہے وَهُمْ : اور وہ يُجَادِلُوْنَ : جھگڑتے ہیں فِي اللّٰهِ : اللہ (کے بارے) میں وَهُوَ : اور وہ شَدِيْدُ : سخت الْمِحَالِ : پکڑ
اور (بادل کی) گرج اس کی حمد کے ساتھ تسبیح کرتی ہے اور فرشتے بھی اس کے خوف سے۔ اور وہ کڑکنے والی بجلیاں بھیجتا ہے، پھر انھیں ڈال دیتا ہے جس پر چاہتا ہے، جب کہ وہ اللہ کے بارے میں جھگڑ رہے ہوتے ہیں اور وہ بہت سخت قوت والا ہے۔
وَيُسَبِّحُ الرَّعْدُ۔۔ : ”الرَّعْدُ“ یعنی بادل کی گرج، اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنی کمال قدرت، جلال اور عظمت کے بیان کے لیے بادل کی گرج، گرنے والی بجلیوں اور ان کی کڑک کا ذکر فرمایا۔ یہ اس کی حمد کے ساتھ تسبیح کرتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہر کمی اور ہر عیب سے پاک اور ہر کمال اور ہر خوبی کا مالک ہے اور فرشتے بھی اس کے خوف کی وجہ سے تسبیح و تحمید کرتے ہیں، بلکہ کائنات کی ہر چیز کا یہی وظیفہ ہے، فرمایا : (وَاِنْ مِّنْ شَيْءٍ اِلَّايُسَبِّحُ بِحَمْدِهٖ وَلٰكِنْ لَّا تَفْقَهُوْنَ تَسْبِيْحَهُمْ) [ بنی إسرائیل : 44 ] ”اور کوئی بھی چیز نہیں مگر اس کی حمد کے ساتھ تسبیح کرتی ہے اور لیکن تم ان کی تسبیح نہیں سمجھتے۔“ قرآن مجید میں کئی چیزوں کا صاحب احساس ہونا اور بولنا مذکور ہے، جنھیں ہم بےزبان سمجھتے ہیں۔ سلیمان ؑ کے زمانے میں چیونٹی کی بات اور سلیمان ؑ کا اسے سمجھنا، اسی طرح ہدہد سے ان کی گفتگو سورة نمل میں مذکور ہے۔ سورة بقرہ میں پتھروں کا اللہ کے خوف سے گرنا، پھٹ جانا اور ان سے پانی بہ نکلنا مذکور ہے۔ جہنم اور جنت کی گفتگو قرآن و حدیث میں آئی ہے اور اب تو سائنس نے نباتات میں شعور و احساس تجربے سے ثابت کیا ہے۔ کفار کے مرنے پر آسمان و زمین کا نہ رونا سورة دخان (29) میں ہے۔ پرندوں اور پہاڑوں کا داؤد ؑ کے ساتھ مل کر صبح و شام تسبیح کا ذکر کرنا سورة ص (18، 19) میں ہے۔ ”الرعد“ کے متعلق چند احادیث معروف ہیں۔ ایک لمبی روایت ابن عباس ؓ سے مروی ہے، جس میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے یہودیوں کے ایک سوال کے جواب میں فرمایا : ”الرَّعْدُ“ فرشتوں میں سے ایک فرشتہ ہے جو بادل پر مقرر ہے، اس کے ہاتھ میں آگ کا کوڑا ہے، جس کے ساتھ وہ بادل کو ہانکتا ہے اور جو آواز اس سے سنائی دیتی ہے وہ اس کے بادل کو ہانکنے کی آواز ہے، جب وہ اسے ہانکتا ہے یہاں تک کہ وہ اس جگہ پہنچ جاتا ہے جہاں وہ اسے حکم دیتا ہے۔“ یہ حدیث ترمذی (3117) ، مسند احمد (1؍274، ح : 2487) اور سنن کبریٰ للنسائی (6؍336، ح : 9072) وغیرہ میں ہے۔ شیخ البانی ؓ نے اسے سلسلہ صحیحہ (4؍491، ح : 1872) میں ذکر فرمایا ہے اور لمبی بحث کے بعد فرمایا ہے کہ میرے نزدیک یہ حدیث کم از کم حسن ضرور ہے۔ البتہ مسند احمد کی تخریج میں شعیب ارنؤوط نے ابن عباس ؓ کی اس لمبی حدیث کو حسن کہا ہے، مگر اس کے اس رعد والے حصے کو منکر کہا ہے۔ (واللہ اعلم) اگر کوئی کہے کہ سائنس تو اسے بادل کے ٹکڑوں کی رگڑ کا نتیجہ قرار دیتی ہے تو اسے کہیں کہ یہ بات حدیث کے خلاف نہیں، وہ رگڑ بھی تو کسی کے حکم سے بادلوں کے چلنے کے نتیجے ہی میں پیدا ہوتی ہے۔ کائنات کی کوئی بھی چیز خود بخود نہیں چل رہی۔ قبیلہ بنو غفار کے ایک صحابی بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (إِنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ یُنْشِئُ السَّحَابَ فَیَنْطِقُ أَحْسَنَ النُّطْقِ وَیَضْحَکُ أَحْسَنَ الضَّحْکِ) [ السلسلۃ الصحیحۃ : 2؍409، ح : 1665 ] ”اللہ تعالیٰ بادل کو پیدا کرتا ہے تو وہ بولتا ہے، بہترین بولنا اور ہنستا ہے، بہترین ہنسنا۔“ شیخ البانی ؓ نے صحیحہ میں اسے مسند احمد اور کئی کتب حدیث کے حوالے سے ذکر کرکے اس کی سند کو صحیح کہا اور شعیب ارنؤوط نے بھی مسند احمد (39؍91، 92، ح : 23686) میں اس کی سند کو صحیح کہا ہے۔ معلوم ہوا کہ یہ گرج اور چمک بادل ہی کی گفتگو اور اسی کا ہنسنا ہے۔ رہی یہ بات کہ ”رعد“ فرشتے کی آواز ہے یا بادل کی گفتگو، تو حقیقت یہ ہے کہ دونوں باتیں ہی درست ہیں، ان میں کوئی تضاد نہیں۔ وَيُرْسِلُ الصَّوَاعِقَ۔۔ : مفردات راغب میں ہے کہ ”صاعقہ“ تین معنوں میں آتا ہے : 1 موت، جیسے : (اَنْذَرْتُكُمْ صٰعِقَةً مِّثْلَ صٰعِقَةِ عَادٍ وَّثَمُوْدَ) [ الزمر : 68 ] 2 عذاب، جیسے : (وَيُرْسِلُ الصَّوَاعِقَ) [ حٰمٓ السجدۃ : 13 ] 3 آگ، جیسا کہ فرمایا : (وَيُرْسِلُ الصَّوَاعِقَ) [ الرعد : 13 ] کیونکہ صاعقہ کا معنی فضا میں پیدا ہونے والی نہایت سخت آواز (بجلی کی کڑک) ہے، پھر اس کے نتیجے میں مذکورہ تین چیزوں میں سے کوئی بھی چیز واقع ہوسکتی ہے، گویا حقیقت میں صاعقہ ایک ہی چیز ہے، باقی اس کے اثرات ہیں۔ صاعقہ کے ساتھ نکلنے والی بجلی کی چمک نہایت تیز ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ کڑکنے والی بجلیوں کو بھیجتا ہے، پھر جن پر چاہتا ہے بجلی گرا دیتا ہے، جبکہ وہ بےفکر ہو کر اللہ تعالیٰ کے متعلق جھگڑ رہے ہوتے ہیں۔ وَهُمْ يُجَادِلُوْنَ فِي اللّٰهِ : یعنی اتنی نشانیاں دیکھنے کے باوجود اللہ تعالیٰ کے بارے میں جھگڑتے ہیں، کبھی اس کے کمال علم و قدرت اور اکیلے معبود ہونے کا انکار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ دوبارہ زندہ کیسے کرے گا اور کبھی اس کے رسولوں کو جھٹلاتے ہیں اور کبھی اس کے عذاب کے لیے جلدی مچاتے ہیں۔ وَهُوَ شَدِيْدُ الْمِحَالِ : امام راغب نے ”اَلْمِحَالَ“ کا مادہ ”مَحْلٌ“ بتایا ہے اور ”شَدِيْدُ الْمِحَالِ“ کا معنی کیا ہے : ”شَدِیْدُ الْأَخْذِ بالْعُقُوْبَۃِ“ یعنی وہ سخت سزا میں پکڑنے والا ہے۔ امام راغب ہی نے بعض اہل علم کا قول لکھا ہے کہ اس کا مادہ ”حَوْلٌ“ ہے، بمعنی ”قُوَّۃٌ“ یعنی وہ بہت سخت قوت والا ہے۔ اس صورت میں میم زائد ہے۔
Top