بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Al-Quran-al-Kareem - Ar-Ra'd : 1
الٓمّٓرٰ١۫ تِلْكَ اٰیٰتُ الْكِتٰبِ١ؕ وَ الَّذِیْۤ اُنْزِلَ اِلَیْكَ مِنْ رَّبِّكَ الْحَقُّ وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا یُؤْمِنُوْنَ
الٓمّٓرٰ : الف لام میم را تِلْكَ : یہ اٰيٰتُ : آیتیں الْكِتٰبِ : کتاب وَالَّذِيْٓ : اور وہ جو کہ اُنْزِلَ : اتارا گیا اِلَيْكَ : تمہاری طرف مِنْ رَّبِّكَ : تمہارے رب کی طرف سے الْحَقُّ : حق وَلٰكِنَّ : اور لیکن (مگر) اَكْثَرَ النَّاسِ : اکثر لوگ لَا يُؤْمِنُوْنَ : ایمان نہیں لاتے
الۤمّۤرٰ۔ یہ کامل کتاب کی آیات ہیں اور جو کچھ تیری طرف تیرے رب کی جانب سے نازل کیا گیا ہے وہ حق ہے اور لیکن اکثر لوگ ایمان نہیں لاتے۔
الۗمّۗرٰ : یہ حروف مقطعات ہیں، ان کی تفصیل سورة بقرہ کے شروع میں گزر چکی ہے۔ شعراوی ؓ نے یہاں ایک فائدہ ذکر فرمایا ہے کہ قرآن مجید سارا وصل پر مبنی ہے، یعنی ہر لفظ دوسرے سے ملا ہوا ہے، سوائے اس مقام کے جہاں وقف کرنا ہو، جیسا کہ آیت کا آخر وغیرہ، مثلاً اسی سورت کو لے لیں : (تِلْكَ اٰيٰتُ الْكِتٰبِ) اس میں ہر لفظ پر اعراب پڑھیں گے، مگر حروف مقطعات ”الۗمّۗرٰ“ کو ملا کر نہیں پڑھیں گے، بلکہ چاروں حرفوں کو الگ الگ پڑھیں گے، کیونکہ جبریل ؑ نے رسول اللہ ﷺ کو ایسے ہی پڑھایا، پھر آپ نے ایسے ہی پڑھا اور ہم تک تواتر سے ایسے ہی پہنچا۔ تِلْكَ اٰيٰتُ الْكِتٰبِ : کوئی لفظ جب مطلق بولا جائے تو اس سے کامل فرد مراد ہوتا ہے، مثلاً کہتے ہیں : ”فُلاَنٌ الرَّجُلُ“ یعنی فلاں شخص مرد ہے، مطلب واقعی سچ مچ کامل مرد ہے، بخیل، بزدل، جھوٹا یا لولا لنگڑا نہیں۔ اسی طرح دین و عقائد میں ”اَلْکِتَابُ“ سے مراد کامل کتاب قرآن مجید لیا جاتا ہے۔ نحو میں سیبویہ کی کتاب کو ”اَلْکِتَابُ“ اور شہروں میں سے ”مَدِیْنَۃُ النَّبِيِّ ﷺ“ کو ”اَلْمَدِیْنَۃُ“ کہا جاتا ہے۔ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يُؤْمِنُوْنَ : یعنی آپ کی طرف جو کچھ نازل کیا گیا وہی عین حق ہے، مگر اکثر لوگ غور و فکر نہ کرنے کی وجہ سے ایمان نہیں لاتے۔ اس میں انسانوں کی اکثریت کی رائے کے پرستاروں کے لیے سبق ہے اور ان لوگوں کی تعریف بھی ہے جو ایمان سے بہرہ ور ہیں، وہ قلیل بھی ہوسکتے ہیں کثیر بھی، مگر اکثریت انھی کی ہے جو ایمان کی سعادت سے محروم ہیں۔
Top