Al-Quran-al-Kareem - Ar-Ra'd : 32
وَ لَقَدِ اسْتُهْزِئَ بِرُسُلٍ مِّنْ قَبْلِكَ فَاَمْلَیْتُ لِلَّذِیْنَ كَفَرُوْا ثُمَّ اَخَذْتُهُمْ١۫ فَكَیْفَ كَانَ عِقَابِ
وَلَقَدِ : اور البتہ اسْتُهْزِئَ : مذاق اڑایا گیا بِرُسُلٍ : رسولوں کا مِّنْ قَبْلِكَ : تم سے پہلے فَاَمْلَيْتُ : تو میں نے ڈھیل دی لِلَّذِيْنَ كَفَرُوْا : جنہوں نے کفر کیا (کافر) ثُمَّ : پھر اَخَذْتُهُمْ : میں نے ان کی پکڑ کی فَكَيْفَ : سو کیسا كَانَ : تھا عِقَابِ : میرا بدلہ
اور بلاشبہ یقینا تجھ سے پہلے کئی رسولوں کا مذاق اڑایا گیا تو میں نے ان لوگوں کو مہلت دی جنھوں نے کفر کیا، پھر میں نے انھیں پکڑ لیا تو میرا عذاب کیسا تھا۔
وَلَقَدِ اسْتُهْزِئَ بِرُسُلٍ۔۔ :”عِقَابِ“ اصل میں ”عِقَابِیْ“ تھا۔ آیات کی موافقت کے لیے یاء حذف کر کے کسرہ رہنے دیا گیا۔ ”أَمْلَیْتُ“ باب افعال (ناقص واوی) بمعنی مہلت دینا، اس سے مقصود نبی ﷺ کو تسلی دینا ہے کہ آپ ان کافروں کے ٹھٹھا مذاق کرنے اور ناجائز اور ناممکن مطالبات کرنے سے بددل نہ ہوں، پہلے رسولوں کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا ہے۔ نوح ؑ کشتی بنا رہے تھے تو ہر گزرنے والا ان سے ٹھٹھا کرتا۔ [ ہود : 38 ] شعیب ؑ سے ان کی قوم نے کہا : ”ہم پر آسمان کا کوئی ٹکڑا گرا دو۔“ [ الشعراء : 187 ] ہود ؑ کی قوم نے کہا : ”ہم یقیناً تجھے بےوقوفی میں مبتلا دیکھ رہے ہیں۔“ [ الأعراف : 66 ] فرعون نے موسیٰ ؑ کو ”مُھِیْن“ (حقیر) کہا اور زبان کی لکنت کا طعنہ دیا۔ [ الزخرف : 52 ] فرمایا، اس کے باوجود میں نے کفار کو مہلت دی، تاکہ ان کا عذر ختم ہوجائے، پھر میں نے انھیں پکڑ لیا تو آپ بھی ان کی حرکتوں سے دل گرفتہ نہ ہوں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (إِنَّ اللّٰہَ لَیُمْلِيْ للظَّالِمِ حَتّٰی إِذَا أَخَذَہُ لَمْ یُفْلِتْہُ) ”اللہ تعالیٰ ظالم کو مہلت دیتا ہے، یہاں تک کہ جب اسے پکڑتا ہے تو اسے چھوڑتا نہیں۔“ پھر آپ ﷺ نے یہ آیت پڑھی : (وَكَذٰلِكَ اَخْذُ رَبِّكَ اِذَآ اَخَذَ الْقُرٰي وَهِىَ ظَالِمَةٌ ۭ اِنَّ اَخْذَهٗٓ اَلِيْمٌ شَدِيْدٌ) [ ھود : 102 ] ”اور تیرے رب کی پکڑ ایسی ہی ہوتی ہے، جب وہ بستیوں کو پکڑتا ہے، اس حال میں کہ وہ ظلم کرنے والی ہوتی ہیں، بیشک اس کی پکڑ بڑی دردناک، بہت سخت ہے۔“ [ بخاري، التفسیر، باب قولہ : (و کذٰلک أخذ ربک إذا أخذ القریٰ۔۔) : 4686، عن أبي موسیٰ۔ مسلم : 2583 ]
Top