Al-Quran-al-Kareem - Ibrahim : 15
وَ اسْتَفْتَحُوْا وَ خَابَ كُلُّ جَبَّارٍ عَنِیْدٍۙ
وَاسْتَفْتَحُوْا : اور انہوں نے فتح مانگی وَخَابَ : اور نامراد ہوا كُلُّ : ہر جَبَّارٍ : سرکش عَنِيْدٍ : ضدی
اور انھوں نے فیصلہ مانگا اور ہر سرکش، سخت عناد رکھنے والا نامراد ہوا۔
وَاسْتَفْتَحُوْا۔۔ : فتح کا معنی قرآن مجید میں ”فتح و نصرت“ بھی آیا ہے اور ”فیصلہ“ بھی۔ ”َاسْتَفْتَحُوْا“ کا معنی انھوں نے فتح و نصرت مانگی، یا انھوں نے فیصلہ مانگا اور اس کا فاعل پیغمبر بھی ہوسکتے ہیں اور کفار بھی۔ اگر معنی فتح و نصرت ہو تو مطلب یہ ہوگا کہ پیغمبروں نے بیشمار آزمائشیں آنے پر اپنے رب سے فتح و نصرت کی دعا کی جو قبول ہوئی، فرمایا : (حَتّٰى يَقُوْلَ الرَّسُوْلُ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مَعَهٗ مَتٰى نَصْرُ اللّٰهِ ۭ اَلَآ اِنَّ نَصْرَ اللّٰهِ قَرِيْبٌ) [ البقرۃ : 214 ] ”یہاں تک کہ رسول اور جو لوگ اس کے ساتھ ایمان لائے تھے کہہ اٹھے، اللہ کی مدد کب ہوگی ؟ سن لو بیشک ! اللہ کی مدد قریب ہے۔“ اگر ”َاسْتَفْتَحُوْا“ کا فاعل کفار ہوں تو مطلب یہ ہوگا کہ ”کافروں نے اپنے داتاؤں اور دستگیروں سے فتح و نصرت کی دعا مانگی مگر وہ ناکام ہوئے۔“ اگر فتح کا معنی فیصلہ ہو تو مطلب ہوگا کہ پیغمبروں اور ان پر ایمان لانے والوں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی، فرمایا : (رَبَّنَا افْتَحْ بَيْنَنَا وَبَيْنَ قَوْمِنَا بالْحَقِّ وَاَنْتَ خَيْرُ الْفٰتِحِيْنَ) [ الأعراف : 89 ] ”اے ہمارے رب ! تو ہمارے درمیان اور ہماری قوم کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ فرما اور تو سب فیصلہ کرنے والوں سے بہتر ہے۔“ نتیجہ یہ ہوا کہ ہر سرکش و سخت عناد رکھنے والا ناکام و نامراد ہوا۔ یا مطلب یہ ہے کہ کفار نے اللہ تعالیٰ سے فیصلے کی دعا کی، فرمایا : (وَاِذْ قَالُوا اللّٰهُمَّ اِنْ كَانَ هٰذَا هُوَ الْحَقَّ مِنْ عِنْدِكَ فَاَمْطِرْ عَلَيْنَا حِجَارَةً مِّنَ السَّمَاۗءِ اَوِ ائْتِنَا بِعَذَابٍ اَلِيْمٍ) [ الأنفال : 32 ] ”اور جب انھوں نے کہا کہ اے اللہ ! اگر صرف یہی تیری طرف سے حق ہے تو ہم پر آسمان سے پتھروں کی بارش برسا، یا ہم پر کوئی دردناک عذاب لے آ۔“ ”َاسْتَفْتَحُوْا“ کے ان چاروں معنوں میں سے جو معنی بھی کریں وہ درست ہے اور قرآن مجید کے مختلف مقامات پر چاروں معانی موجود ہیں۔ قرآن کا اعجاز دیکھیے کہ ایک ہی لفظ ایسا بولا جو چاروں پر صادق آتا ہے۔ غرض دنیا میں نتیجہ یہ نکلا کہ ہر سرکش اور سخت عناد رکھنے والا کافر ناکام اور نامراد ہوا۔ رہا آخرت کا انجام تو وہ آئندہ آیت میں مذکور ہے۔
Top