Al-Quran-al-Kareem - Ibrahim : 27
یُثَبِّتُ اللّٰهُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَ فِی الْاٰخِرَةِ١ۚ وَ یُضِلُّ اللّٰهُ الظّٰلِمِیْنَ١ۙ۫ وَ یَفْعَلُ اللّٰهُ مَا یَشَآءُ۠   ۧ
يُثَبِّتُ : مضبوط رکھتا ہے اللّٰهُ : اللہ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : وہ لوگ جو ایمان لائے (مومن) بِالْقَوْلِ : بات سے الثَّابِتِ : مضبوط فِي : میں الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا : دنیا کی زندگی وَ : اور فِي الْاٰخِرَةِ : آخرت میں وَيُضِلُّ : اور بھٹکا دیتا ہے اللّٰهُ : اللہ الظّٰلِمِيْنَ : ظالم (جمع) وَيَفْعَلُ : اور کرتا ہے اللّٰهُ : اللہ مَا يَشَآءُ : جو چاہتا ہے
اللہ ان لوگوں کو جو ایمان لائے، پختہ بات کے ساتھ خوب قائم رکھتا ہے، دنیا کی زندگی میں اور آخرت میں بھی اور اللہ ظالموں کو گمراہ کردیتا ہے اور اللہ کرتا ہے جو چاہتا ہے۔
يُثَبِّتُ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا : قول ثابت سے مراد کلمہ شہادت اور عقیدۂ توحید ہے۔ اللہ تعالیٰ ایمان والوں کو دنیا میں سخت سے سخت آزمائشوں اور سزاؤں میں بھی اسلام پر قائم رکھتا ہے۔ اصحاب الاخدود کو دیکھ لیجیے، ان انبیاء و شہداء کو دیکھ لیجیے جو اللہ کی راہ میں قتل کردیے گئے، مگر انھوں نے اسلام کا دامن نہیں چھوڑا۔ ابراہیم ؑ کے آگ میں پھینکے جانے کو دیکھ لیجیے، ہمارے نبی ﷺ اور صحابہ کرام ؓ مثلاً بلال، عمار، یاسر، خباب، سمیہ، خبیب وغیرہم ؓ پر آنے والی تنگیوں اور تکلیفوں کو دیکھ لیجیے۔ اس آیت میں فرمایا کہ ان لوگوں کا کلمہ شہادت پر قائم رہنا اللہ تعالیٰ کے ثابت رکھنے سے ہے، وہی ان میں اس قدر عزم و ہمت اور استقامت پیدا کردیتا ہے کہ وہ سخت سے سخت حالات ہوں یا دنیاوی آسائشوں کی آزمائش ہو، ہر حال میں پختہ بات (کلمہ اسلام) پر خوب قائم رہتے ہیں۔ ”يُثَبِّتُ“ کا ترجمہ باب تفعیل کی وجہ سے ”خوب قائم رکھتا ہے“ کیا ہے۔ وَفِي الْاٰخِرَةِ : اس سے مراد قبر میں سوال و جواب ہے۔ براء بن عازب ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (إِذَا أُقْعِدَ الْمُؤْمِنُ فِيْ قَبْرِہِ أُتِيَ ثُمَّ شَھِدَ أَنْ لَا إِلٰٰہَ إِلاَّ اللّٰہُ ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلُ اللّٰہِ ، فَذٰلِکَ قَوْلُہُ : (يُثَبِّتُ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بالْقَوْلِ الثَّابِتِ) [ إبراہیم : 27 ] ”جب مومن کو قبر میں بٹھایا جاتا ہے تو اس کے پاس فرشتے آتے ہیں، پھر وہ شہادت دیتا ہے : ”أَنْ لاَّ إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَأَنَّ مُحََمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہِ“ چناچہ اللہ کے اس فرمان : (يُثَبِّتُ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بالْقَوْلِ الثَّابِتِ) کا یہی مطلب ہے۔“ [ بخاري، الجنائز، باب ما جاء فی عذاب القبر : 1369 ] صحیح بخاری ہی میں اس کے بعد والی روایت میں یہ لفظ ہیں کہ یہ آیت عذاب قبر کے بارے میں اتری۔ وَيُضِلُّ اللّٰهُ الظّٰلِمِيْنَ : انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (إِنَّ الْعَبْدَ إِذَا وُضِعَ فِيْ قَبْرِہِ وَتَوَلَّی عَنْہُ أَصْحَابُہُ ، وَإِنَّہُ لَیَسْمَعُ قَرْعَ نِعَالِھِمْ ، أَتَاہُ مَلَکَانِ فَیُقْعِدَانِہِ فَیَقُوْلاَنِ مَا کُنْتَ تَقُوْلُ فِيْ ھٰذَا الرَّجُلِ لِمُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ؟ فَأَمَّا الْمُؤْمِنُ فَیَقُوْلُ أَشْھَدُ أَنَّہُ عَبْدُ اللّٰہِ وَرَسُوْلُہُ ، فَیُقَالُ لَہُ انْظُرْ إِلٰی مَقْعَدِکَ مِنَ النَّارٍ قَدْ أَبْدَلَکَ اللّٰہُ بِہِ مَقْعَدًا مِنَ الْجَنَّۃِ ، فَیَرَاھُمَا جَمِیْعًا، أَنَّہُ یُفْسَحُ لَہُ فِيْ قَبْرِہِ ، وَأَمَّا الْمُنَافِقُ وَالْکَافِرُ فَیُقَالُ لَہُ مَا کُنْتَ تَقُوْلُ فِيْ ھٰذَا الرَّجُلِ ؟ فَیَقُوْلُ لاَ أَدْرِيْ ، کُنْتُ أَقُوْلُ مَا یَقُوْلُہُ النَّاسُ ، فَیُقَالُ لَادَرَیْتَ وَلَا تَلَیْتَ ، وَیُضْرَبُ بِمَطَارِقَ مِنْ حَدِیْدٍ ضَرْبَۃً فَیَصِیْحُ صَیْحَۃً یَسْمَعُھَا مَنْ یَلِیْہِ غَیْرَ الثَّقَلَیْنِ) [ بخاري، الجنائز، باب ما جاء فی عذاب القبر : 1374 ] ”بندہ جب اپنی قبر میں رکھا جاتا ہے اور اس کے ساتھی واپس چل پڑتے ہیں اور وہ اپنے ساتھیوں کے جوتوں کی آواز سن رہا ہوتا ہے، تو اس کے پاس دو فرشتے آجاتے ہیں، وہ اسے بٹھا دیتے ہیں اور کہتے ہیں : ”تو اس آدمی محمد ﷺ کے متعلق کیا کہتا تھا ؟“ اگر وہ مومن ہے تو کہتا ہے : ”میں شہادت دیتا ہوں کہ وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں“ تو اس سے کہا جاتا ہے کہ آگ میں اپنی جگہ دیکھ، اللہ تعالیٰ نے اسے بدل کر تجھے جنت میں جگہ دے دی ہے۔ چناچہ وہ ان دونوں کو دیکھتا ہے، تو اس کے لیے اس کی قبر کو وسیع کردیا جاتا ہے اور منافق اور کافر، اس سے کہا جاتا ہے : ”تو اس آدمی (محمد ﷺ کے متعلق کیا کہا کرتا تھا ؟“ وہ کہتا ہے : ”میں نہیں جانتا، جو کچھ لوگ کہتے تھے میں وہی کہا کرتا تھا۔“ تو اس سے کہا جاتا ہے : ”نہ تو نے کچھ جانا اور نہ جاننے کی کوشش کی۔“ پھر اسے لوہے کے ہتھوڑوں کے ساتھ ایک ضرب ماری جاتی ہے تو وہ ایسا چیختا ہے کہ دو بھاری مخلوقوں (جن و انس) کے سوا سب چیزیں جو اس کے قریب ہوتی ہیں، اس آواز کو سنتی ہیں۔“ قبر کا عذاب حق ہے۔ امام بخاری ؓ نے کئی آیات و احادیث سے اسے ثابت فرمایا ہے، دیکھیے سورة بنی اسرائیل (20) ، سورة انعام (93) ، سورة توبہ (101) ، سورة مومن (45، 46) اور زیر تفسیر آیت۔ ابوہریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ نبی ﷺ یہ دعا کیا کرتے تھے : (اَللّٰھُمَّ إِنِّيْ أَعُوْذُ بِکَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ وَ مِنْ عَذَاب النَّارِ وَ مِنْ فِتْنَۃِ الْمَحْیَا وَالْمَمَاتِ وَمِنْ فِتْنَۃِ الْمَسِیْحِ الدَّجَّالِ) [ بخاری، الجنائز، باب التعوذ من عذاب القبر : 1377 ] بلکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ”جب تم میں سے کوئی شخص تشہد سے فارغ ہو تو چار چیزوں سے پناہ مانگے : (اَللّٰھُمَّ إِنِّيْ أَعُوْذُ بِکَ مِنْ عَذَابِ جَھَنَّمَ وَعَذَابِ الْقَبْرِ وَفِتْنَۃِ الْمَحْیَا وَالْمَمَاتِ وَمِنْ شَرِّ الْمَسِیْحِ الدَّجَّالِ) اس کے بعد اپنے لیے جو چاہے دعا کرے۔“ [ السنن الکبریٰ للنسائی : 1؍389، 390، ح : 1233، عن أبي ہریرہ ؓ۔ صحیح ] اس لیے بعض ائمہ نے یہ دعا پڑھنا تشہد کے بعد واجب قرار دیا ہے، دوسری دعائیں اس کے بعد پڑھے۔ اتنی واضح آیات و احادیث کے باوجود بہت سے بدنصیب عذاب قبر کے منکر ہیں۔ وہ ان شاء اللہ بہت جلد اپنی آنکھوں سے سب کچھ دیکھ لیں گے۔ وَيَفْعَلُ اللّٰهُ مَا يَشَاۗءُ : اہل ایمان کو ثابت رکھنا، ظالموں کو ہدایت سے محروم رکھنا، اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے کرتا ہے، اگر وہ چاہتا تو اپنی دوسری ساری مخلوق کی طرح جن و انس کو بھی اپنے احکام بجا لانے پر مجبور کردیتا، مگر اس کی مرضی کہ اس نے ان دونوں کو ہدایت یا ضلالت، کفر یا ایمان کا اختیار دیا۔ اب جو جدھر جانا چاہتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے لیے وہی راستہ آسان کردیتا ہے۔ دیکھیے سورة دہر (3) اور سورة لیل (1 تا 10)۔
Top