Al-Quran-al-Kareem - Ibrahim : 39
اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِیْ وَهَبَ لِیْ عَلَى الْكِبَرِ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِسْحٰقَ١ؕ اِنَّ رَبِّیْ لَسَمِیْعُ الدُّعَآءِ
اَلْحَمْدُ : تمام تعریفیں لِلّٰهِ : اللہ کیلئے الَّذِيْ : وہ جو جس وَهَبَ لِيْ : بخشا مجھے عَلَي : پر۔ میں الْكِبَرِ : بڑھاپا اِسْمٰعِيْلَ : اسمعیل وَاِسْحٰقَ : اور اسحق اِنَّ : بیشک رَبِّيْ : میرا رب لَسَمِيْعُ : البتہ سننے والا الدُّعَآءِ : دعا
سب تعریف اس اللہ کی ہے جس نے مجھے بڑھاپے کے باوجود اسماعیل اور اسحاق عطا کیے۔ بیشک میرا رب تو بہت دعا سننے والا ہے۔
اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْ وَهَبَ لِيْ۔۔ : ”وَھَبَ یَھَبُ ھِبَۃً“ کا معنی کسی معاوضے کے بغیر عطا کردینا ہے۔ معلوم ہوا اولاد اللہ تعالیٰ کا ہبہ ہے، یہ صرف اسباب جمع ہوجانے سے نہیں ہوتی، ورنہ ہر تندرست جوڑے کے ملنے سے اولاد ہوجاتی، بلکہ یہ محض عطائے الٰہی ہے، وہ بھی اس کی مرضی کے مطابق ہوتی ہے، چاہے تو لڑکے ہی دے، چاہے لڑکیاں، چاہے دونوں ملا کر دے اور چاہے تو بےاولاد رکھے۔ (مزید دیکھیے الشوریٰ : 50) رازی نے فرمایا، قرآن سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ابراہیم ؑ کو یہ دونوں بیٹے بڑی عمر اور بڑھاپے میں عطا کیے گئے، لیکن یہ بات کہ اس وقت آپ کی عمر کیا تھی معلوم نہیں ہوتی، اس کے لیے صرف اسرائیلی روایات کی طرف رجوع کیا جاتا ہے، چناچہ کہا جاتا ہے کہ اسماعیل ؑ پیدا ہوئے تو ابراہیم ؑ ننانویں (99) برس کے تھے اور اسحاق ؑ پیدا ہوئے تو آپ ﷺ کی عمر ایک سو بارہ (112) برس تھی۔ مگر رسول اللہ ﷺ کے فرمان کے مطابق ہم اس کی تصدیق یا تکذیب نہیں کرسکتے۔ لَسَمِيْعُ الدُّعَاۗءِ : لفظی معنی ہے ”دعا کو بہت سننے والا“ مگر مراد قبول کرنے والا ہے، جیسے کہا جاتا ہے، فلاں کی تو سنی گئی، یعنی مراد پوری ہوگئی۔
Top