Al-Quran-al-Kareem - Ibrahim : 50
سَرَابِیْلُهُمْ مِّنْ قَطِرَانٍ وَّ تَغْشٰى وُجُوْهَهُمُ النَّارُۙ
سَرَابِيْلُهُمْ : ان کے کرتے مِّنْ : سے۔ کے قَطِرَانٍ : گندھک وَّتَغْشٰى : اور ڈھانپ لے گی وُجُوْهَهُمُ : ان کے چہرے النَّارُ : آگ
ان کی قمیصیں گندھک کی ہوں گی اور ان کے چہروں کو آگ ڈھانپے ہوگی۔
سَرَابِيْلُهُمْ مِّنْ قَطِرَانٍ : ”سَرَابِیْلُ“ ”سِرْبَالٌ“ کی جمع ہے، بمعنی قمیص۔ ”قَطِرَانٍ“ کا معنی قاموس اور لسان العرب میں ہے ابہل، صنوبر (چلغوزہ) اور اس قسم کے درختوں مثلاً چیڑ یا دیار وغیرہ سے نکلنے والی گوند، یعنی رال یا گندہ بیروزا جو تیزی سے جلتا ہے اور سخت بدبو دار ہوتا ہے، خارش زدہ اونٹوں کو ملا جاتا ہے۔ تمام مترجمین کی طرح میں نے بھی پہلے اس کا ترجمہ گندھک کیا تھا، مگر تفسیر کے وقت مختلف لغات دیکھنے سے معلوم ہوا کہ ”قَطِرَانٍ“ رال (بیروزا) ہے۔ بعض اہل علم نے اس کا ترجمہ تارکول کیا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ چونکہ اس کا مادہ ”قَطْرٌ“ ٹپکنے کا مفہوم رکھتا ہے، اس لیے اس میں وہ تمام مائع چیزیں مراد ہوسکتی ہیں جو اشتعال پذیر یعنی شعلہ پکڑنے والی ہیں۔ (واللہ اعلم) ابومالک اشعری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (اَلنَّاءِحَۃُ إِذَا لَمْ تَتُبْ قَبْلَ مَوْتِھَا تُقَامُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَعَلَیْھَا سِرْبَالٌ مِنْ قَطِرَانٍ ، وَدِرْعٌ مِنْ جَرَبٍ) [ مسلم، الجنائز، باب التشدید في النیاحۃ : 934 ] ”نوحہ یعنی ماتم و بین کرنے والی عورت اگر مرنے سے پہلے توبہ نہ کرے تو قیامت کے دن اس حال میں اٹھے گی کہ اس پر ”قَطِرَانٌ“ کی قمیص اور خارش کا کرتہ ہوگا۔“ ابن عباس ؓ کی قراءت ہے ”مِنْ قَطِرٍ آنٍ“ یعنی ان کی قمیصیں کھولتے ہوئے تانبے سے ہوں گی، مگر پہلی قراءت ”قَطِرَانٍ“ متواتر اور راجح ہے۔ چہروں کو آگ سے ڈھانپنے کا خصوصاً ذکر اس لیے فرمایا کہ یہ جسم کا سب سے باعزت حصہ ہے، اس کا حال یہ ہوگا تو دوسرے حصوں کا کیا حال ہوگا۔ یہ معاملہ کفار کے ساتھ ہوگا، کیونکہ مومنوں کے سجدے کے آثار (نشانات) کو جلانا اللہ تعالیٰ نے آگ پر حرام کردیا ہے۔ ابوہریرہ ؓ کی ایک لمبی حدیث، جس میں قیامت کے کچھ احوال بیان ہوئے ہیں، اس میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (حَتّٰی إِذَا فَرَغَ اللّٰہُ مِنَ الْقَضَاءِ بَیْنَ الْعِبَادِ ، وَ أَرَادَ أَنْ یُخْرِجَ بِرَحْمَتِہِ مَنْ أَرَادَ مِنْ أَھْلِ النَّارِ ، أَمَرَ الْمَلاَءِکَۃَ أَنْ یُخْرِجُوْا مِنَ النَّارِ مَنْ کَانَ لاَ یُشْرِکُ باللّٰہِ شَیْءًا، مِمَّنْ أَرَاد اللّٰہُ أَنْ یَرْحَمَہُ مِمَّنْ یَشْھَدُ أَنْ لاَّ إِلٰہَ إلَّا اللّٰہُ ، فَیَعْرِفُوْنَھُمْ فِي النَّارِ بِأَثَرِ السُّجُوْدِ ، تَأْکُلُ النَّارُ ابْنَ آدَمَ إِلاَّ أَثَرَ السُّجُوْدِ ، حَرَّمَ اللّٰہُ عَلَی النَّارِ أَنْ تَأْکُلَ أَثَرَ السُّجُوْدِ) [ بخاری، التوحید، باب قول اللّٰہ تعالیٰ : (وجوہ یومئذ ناضرۃ۔۔) : 7437 ] ”جب اللہ تعالیٰ بندوں کے درمیان فیصلے سے فارغ ہوں گے اور اہل نار میں سے اپنی رحمت کے ساتھ جسے نکالنا چاہیں گے تو فرشتوں کو حکم دیں گے کہ وہ ان لوگوں کو آگ سے نکال لائیں جنھوں نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کیا تھا، ان لوگوں میں سے جن پر اللہ رحم کرنا چاہتا ہوگا، جو ”لا الٰہ الا اللہ“ کی شہادت دیتے ہوں گے تو وہ انھیں آگ میں سجدے کے نشان کے ساتھ پہچانیں گے۔ آگ ابن آدم کو کھاجائے گی مگر سجدے کے نشان کو نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آگ پر حرام کردیا ہے کہ وہ سجدے کے نشان کو کھائے۔“ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ سب سے آخر میں جہنم سے نکلنے والے وہ ہوں گے جو شرک سے پاک ہوں گے اور جن کے جسم پر سجدے کے نشان ہوں گے۔ بےنماز اس نشان سے محروم ہوتے ہیں، انھیں اپنا انجام سوچ لینا چاہیے۔
Top