Al-Quran-al-Kareem - Ibrahim : 7
وَ اِذْ تَاَذَّنَ رَبُّكُمْ لَئِنْ شَكَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّكُمْ وَ لَئِنْ كَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِیْ لَشَدِیْدٌ
وَاِذْ تَاَذَّنَ : اور جب آگاہ کیا رَبُّكُمْ : تمہارا رب لَئِنْ : البتہ اگر شَكَرْتُمْ : تم شکر کرو گے لَاَزِيْدَنَّكُمْ : میں ضرور تمہیں اور زیادہ دوں گا وَلَئِنْ : اور البتہ اگر كَفَرْتُمْ : تم نے ناشکری کی اِنَّ : بیشک عَذَابِيْ : میرا عذاب لَشَدِيْدٌ : بڑا سخت
اور جب تمہارے رب نے صاف اعلان کردیا کہ بیشک اگر تم شکر کرو گے تو میں ضرور ہی تمہیں زیادہ دوں گا اور بیشک اگر تم ناشکری کرو گے تو بلاشبہ میرا عذاب یقینا بہت سخت ہے۔
وَاِذْ تَاَذَّنَ رَبُّكُمْ ۝ : ”آذَنَ یُؤْذِنُ“ کا معنی اطلاع دینا، اعلان کرنا ہے۔ باب تفعل میں جانے سے معنی میں اضافہ ہوگیا، اس لیے ترجمہ کیا ہے ”صاف اعلان کردیا۔“ لَىِٕنْ شَكَرْتُمْ لَاَزِيْدَنَّكُمْ : کیونکہ کسی کے بھی احسان کی قدر دانی اور اس کا شکریہ ادا کرنے سے اس کے ساتھ تعلق بڑھتا ہے، پھر اللہ تعالیٰ کا تو کہنا ہی کیا ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (وَلَا شَخْصَ أَحَبُّ إِلَیْہِ الْمِدْحَۃُ مِنَ اللّٰہِ ، مِنْ أَجْلِ ذٰلِکَ وَعَدَ اللّٰہُ الْجَنَّۃَ) [ مسلم، اللعان : 1499 ]”کوئی شخص ایسا نہیں جسے اللہ تعالیٰ سے زیادہ اپنی تعریف پسند ہو، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے جنت کا وعدہ کیا ہے۔“ جب اللہ تعالیٰ کو زبانی شکر اتنا پسند ہے تو عملاً شکر اور اطاعت پر اس کی نوازش کس قدر ہوگی۔ وَلَىِٕنْ كَفَرْتُمْ : اس کا جواب تو یہ تھا ”لَأُعَذِّبَنَّکُمْ“ کہ اگر تم کفر کرو گے تو میں تمہیں ضرور عذاب دوں گا، مگر اسے حذف کرکے ایسا جملہ استعمال فرمایا جو اس جملے کا مفہوم بھی ادا کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے عذاب کی نہایت شدت کو بھی، یعنی فرمایا : (وَلَىِٕنْ كَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِيْ لَشَدِيْدٌ) اور یہ بھی قرآن کا اعجاز ہے۔
Top