Al-Quran-al-Kareem - Al-Hijr : 95
اِنَّا كَفَیْنٰكَ الْمُسْتَهْزِءِیْنَۙ
اِنَّا : بیشک ہم كَفَيْنٰكَ : کافی ہیں تمہارے لیے الْمُسْتَهْزِءِيْنَ : مذاق اڑانے والے
بیشک ہم تجھے مذاق اڑانے والوں کے مقابلے میں کافی ہیں۔
اِنَّا كَفَيْنٰكَ الْمُسْتَهْزِءِيْنَ : ہم ان سے نبٹ لیں گے، آپ بےخوف و خطر دعوت و تبلیغ کا فریضہ سرانجام دیتے رہیے۔ عبداللہ بن عباس ؓ نے قرآن مجید کی یہ آیت پڑھی اور فرمایا کہ نبی ﷺ کا مذاق اڑانے والے (بڑے بڑے یہ پانچ) آدمی تھے، ولید بن مغیرہ، اسود بن عبد یغوث زہری، ابوزمعہ اسود بن مطلب، حارث بن عیطل سہمی اور عاص بن وائل۔ جبریل ؑ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے تو آپ نے ان سے مذاق اڑانے والوں کی شکایت کی۔ حدیث لمبی ہے، خلاصہ یہ کہ جبریل ؑ نے ان کے جسم کے کسی نہ کسی حصے کی طرف اشارہ کیا اور وہ پانچوں بری طرح فوت ہوئے۔ [ السنن الکبریٰ للبیہقی : 9؍8، ح : 18187 ] جو مذاق اڑانے والے باقی رہے ان کا انجام عبداللہ بن مسعود ؓ نے بیان فرمایا : (أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یُصَلِّيْ عِنْدَ الْبَیْتِ ، وَ أَبُوْجَھْلٍ وَأَصْحَابٌ لَہُ جُلُوْسٌ، إذْ قَالَ بَعْضُھُمْ لِبَعْضٍ أَیُّکُمْ یَجِيْءُ بِسَلَی جَزُوْرِ بَنِيْ فُلاَنٍ فَیَضَعُہُ عَلٰی ظَھْرِ مُحَمَّدٍ إِذَا سَجَدَ ؟ فَانْبَعَثَ أَشْقَی الْقَوْمِ ، فَجَاءَ بِہِ فَنَظَرَ حتّٰی إِذَا سَجَدَ النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَضَعَہُ عَلٰی ظَھْرِہِ بَیْنَ کَتِفَیْہِ وَأَنَا أَنْظُرُ ، لاَ أُغْنِيْ شَیْءًا، لَوْ کَانَتْ لِيْ مَنَعَۃٌ، قَالَ فَجَعَلُوْا یَضْحَکُوْنَ وَیُحِیْلُ بَعْضُھُمْ عَلٰی بَعْضٍ ، وَرَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سَاجِدٌ لاَ یَرْفَعُ رَأْسَہُ حَتّٰی جَاءَ تْہُ فَاطِمَۃُ فَطَرَحَتْہُ عَنْ ظَہْرِہِ ، فَرَفَعَ رَأْسَہُ ثُمَّ قَالَ اَللّٰھُمَّ عَلَیْکَ بِقُرَیْشٍ ، ثَلاَثَ مَرَّاتٍ ، فَشَقَّ عَلَیْھِمْ إِذْ دَعَا عَلَیْھِمْ ، قَالَ وَکَانُوْا یَرَوْنَ أنَّ الدَّعْوَۃَ فِيْ ذٰلِکَ الْبَلَدِ مُسْتَجَابَۃٌ، ثُمَّ سَمَّی اَللّٰھُمَّ عَلَیْکَ بِأَبِيْ جَھْلٍ ، وَعَلَیْکَ بِعُتْبَۃَ بْنِ رَبِیْعَۃَ ، وَشَیْبَۃَ بْنِ رَبِیْعَۃَ ، وَالْوَلیْدِ بْنِ عُتْبَۃَ ، وَأُمَیَّۃَ بْنِ خَلَفٍ ، وَعُقَبَۃَ بْنِ أَبِيْ مُعَیْطٍ ، وَعَدَّ السَّابِعَ فَلَمْ نَحْفَظْہُ ، قَالَ فَوَالَّذِيْ نَفْسِيْ بِیَدِہِ لَقَدْ رَأَیْتُ الَّذِیْنَ عَدَّ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ صَرْعَی فِي الْقَلِیْبِ قَلِیْبِ بَدْرٍ) [ بخاری، الوضوء، باب إذا ألقي علٰی ظہر المصلي قدر۔۔ : 240 ] ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ بیت اللہ کے پاس نماز پڑھ رہے تھے اور ابوجہل اور اس کے کچھ ساتھی وہاں بیٹھے ہوئے تھے، انھوں نے آپس میں کہا کہ تم میں سے کون ہے جو بنو فلاں کی ذبح کردہ اونٹنی کی اوجھڑی و بچہ دانی وغیرہ اٹھا کر لائے اور محمد ﷺ جب سجدہ کرے تو اس کی پیٹھ پر رکھ دے۔ تو ان میں سے سب سے بدبخت شخص اٹھا اور اس نے وہ اوجھڑی وغیرہ لا کر آپ کے کندھوں کے درمیان رکھ دی۔ میں دیکھ رہا تھا مگر کچھ نہ کرسکتا تھا، کاش ! مجھ میں آپ کے دفاع کی طاقت ہوتی۔ تو وہ سب ہنستے ہنستے ایک دوسرے پر لوٹ پوٹ ہونے لگے۔ رسول اللہ ﷺ سجدے ہی میں رہے، سر نہیں اٹھایا، یہاں تک کہ فاطمہ ؓ آئیں اور اسے آپ کی کمر سے اتار پھینکا، تو آپ نے سر اٹھایا اور کہا : ”یا اللہ ! قریش کو پکڑ۔“ آپ کی یہ بددعا ان پر بڑی شاق گزری، وہ سمجھتے تھے کہ اس شہر میں دعا قبول ہوتی ہے۔ پھر آپ نے نام لے کر فرمایا : ”اے اللہ ! ابوجہل کو پکڑ، عتبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ، ولید بن عتبہ، امیہ بن خلف اور عقبہ بن ابی معیط کو پکڑ۔“ ایک ساتواں بھی گنا جو ہمیں یاد نہیں رہا۔“ ابن مسعود ؓ نے فرمایا : ”پھر اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! میں نے ان تمام آدمیوں کو جو رسول اللہ ﷺ نے گنے تھے، بدر کے کنویں میں ہلاک شدہ گرے ہوئے دیکھا۔“
Top