Al-Quran-al-Kareem - An-Nahl : 113
وَ لَقَدْ جَآءَهُمْ رَسُوْلٌ مِّنْهُمْ فَكَذَّبُوْهُ فَاَخَذَهُمُ الْعَذَابُ وَ هُمْ ظٰلِمُوْنَ
وَ : اور لَقَدْ جَآءَهُمْ : بیشک ان کے پاس آیا رَسُوْلٌ : ایک رسول مِّنْهُمْ : ان میں سے فَكَذَّبُوْهُ : سو انہوں نے اسے جھٹلایا فَاَخَذَهُمُ : تو انہیں آپکڑا الْعَذَابُ : عذاب وَهُمْ : اور وہ ظٰلِمُوْنَ : ظالم (جمع)
اور بلاشبہ یقینا ان کے پاس انھی میں سے ایک رسول آیا تو انھوں نے اسے جھٹلا دیا، تو انھیں عذاب نے اس حال میں پکڑ لیا کہ وہ ظالم تھے۔
وَلَقَدْ جَاۗءَهُمْ رَسُوْلٌ مِّنْهُمْ۔۔ : یہ ان احسانات میں سے ایک بہت بڑا احسان تھا کہ اللہ تعالیٰ نے انھی میں سے ایک رسول ان کی طرف بھیجا۔ غالباً اسی لفظ کو بنیاد بنا کر اکثر مفسرین نے اس بستی سے مراد مکہ معظمہ لیا ہے، ورنہ اس کی تعیین کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ہے۔ پہلے رسولوں کی کوئی بستی بھی مراد ہوسکتی ہے اور ان کی طرف آنے والا رسول بھی۔ البتہ اس سے مکہ بالاولیٰ مراد ہے۔ یہاں جس بھوک اور خوف کا لباس چکھانے کا ذکر ہے اس کی تفصیل عبداللہ بن مسعود ؓ نے بیان فرمائی ہے کہ نبی ﷺ نے جب لوگوں (کے ایمان لانے) سے گریز کو دیکھا تو آپ نے عرض کیا : (اَللّٰہُمَّ سَبْعًا کَسَبْعِ یُوْسُفَ)”اے اللہ ! یوسف (ؑ) کے سات سالوں جیسے سات سال مسلط فرما۔“ تو انھیں ایسی قحط سالی نے آپکڑا جس نے ہر چیز کو تباہ و برباد کردیا، یہاں تک کہ وہ چمڑے، مردار اور لاشیں بھی کھا گئے، بھوک کی وہ شدت تھی کہ ان میں سے کوئی آسمان کی طرف دیکھتا تو اسے دھواں نظر آتا۔ [ بخاری، الاستسقاء، باب دعاء النبي ﷺ : اجعلھا سنین۔۔ : 1007 ] ادھر مسلمانوں کے ساتھ ہر وقت حالت جنگ کی وجہ سے باہر سے آنے والے لوگوں کی آمد بھی رک گئی اور خوف کی یہ حالت تھی کہ وہ ہر وقت مکہ میں اور مکہ سے باہر بھی مسلمانوں کے حملے سے خوف زدہ رہتے تھے۔ بہرحال شوکانی اور کئی مفسرین کہتے ہیں کہ ان آیات میں کسی متعین بستی کا ذکر نہیں ہے، محض ایک تباہ شدہ بستی کی مثال دے کر اہل مکہ کو متنبہ کیا گیا ہے کہ اگر تم نے ہماری نعمتوں خصوصاً رسول بھیجنے کی ناشکری کی تو تمہارے ساتھ بھی یہی معاملہ کیا جائے گا۔ شاہ عبد القادر ؓ لکھتے ہیں : ”ایسے بہت سے شہر ہوتے ہیں، پر احوال فرمایا مکہ کا۔“ (موضح)
Top