Al-Quran-al-Kareem - An-Nahl : 12
وَ سَخَّرَ لَكُمُ الَّیْلَ وَ النَّهَارَ١ۙ وَ الشَّمْسَ وَ الْقَمَرَ١ؕ وَ النُّجُوْمُ مُسَخَّرٰتٌۢ بِاَمْرِهٖ١ؕ اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَۙ
وَسَخَّرَ : اور مسخر کیا لَكُمُ : تمہارے لیے الَّيْلَ : رات وَالنَّهَارَ : اور دن وَالشَّمْسَ : اور سورج وَالْقَمَرَ : اور چاند وَالنُّجُوْمُ : اور ستارے مُسَخَّرٰتٌ : مسخر بِاَمْرِهٖ : اس کے حکم سے اِنَّ : بیشک فِيْ : میں ذٰلِكَ : اس لَاٰيٰتٍ : البتہ نشانیاں لِّقَوْمٍ : لوگوں کے لیے يَّعْقِلُوْنَ : وہ عقل سے کام لیتے ہیں
اور اس نے تمہاری خاطر رات اور دن اور سورج اور چاند کو مسخر کردیا اور ستارے اس کے حکم کے ساتھ مسخر ہیں۔ بیشک اس میں ان لوگوں کے لیے یقینا بہت سی نشانیاں ہیں جو سمجھتے ہیں۔
وَسَخَّرَ لَكُمُ الَّيْلَ وَالنَّهَارَ۔۔ : تسخیر کا معنی کسی چیز کو اس کا اختیار اور مرضی ختم کرکے اپنا تابع بنا کر اپنی مرضی کے مطابق چلانا ہے۔ رات اور دن کے ساتھ سورج اور چاند کے تعلق کی بنا پر چاروں کا ذکر اکٹھا کیا۔ ”لَكُمُ“ (تمھارے لیے) کا یہ مطلب نہیں کہ رات دن اور سورج چاند تمہارے تابع فرمان کردیے ہیں، بلکہ وہ اللہ تعالیٰ کے زبردست حکم ہی کے تابع ہیں، اس کے مقرر کردہ نظام سے نہ بال برابر ادھر ادھر ہوسکتے ہیں نہ آنکھ جھپکنے کے برابر ادھر ادھر۔ (دیکھیے فاطر : 41) ”لَکُمْ“ کا مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان سب کو تمہاری بقا، ضروریات اور منافع کے لیے پابند کر رکھا ہے۔ اسے لام انتفاع کہتے ہیں، اسی لیے ترجمہ ”تمہاری خاطر“ کیا گیا ہے۔ ”وَسَخَّرَ“ کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنی مرضی یا اختیار استعمال ہی نہیں کرسکتے، صرف انسان کو آزمائش کے لیے کچھ اختیار دیا ہے، وہ بھی صحیح یا غلط راستہ اختیار کرنے کا، باقی وہ بھی اللہ تعالیٰ کے زبردست حکم کے آگے بےبس ہے، زندگی اور موت پر، فقرو غنا پر، صحت و بیماری پر، الغرض بیشمار چیزیں ہیں جن پر انسان کا کچھ اختیار نہیں۔ باقی تمام مخلوق کو جو مکمل مسخر کردیا اور ان کی مرضی بالکل ختم کردی تو یہ ان سے پوچھ کر ہی کیا، اگر وہ بھی آزمائش قبول کر کے کچھ اختیار چاہتے تو انھیں مل جاتا، مگر انھوں نے جرأت ہی نہیں کی اور مکمل خود سپردگی اختیار کی، جیسا کہ فرمایا : (اِنَّا عَرَضْنَا الْاَمَانَةَ عَلَي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَالْجِبَالِ فَاَبَيْنَ اَنْ يَّحْمِلْنَهَا وَاَشْفَقْنَ مِنْهَا وَحَمَلَهَا الْاِنْسَانُ ۭ اِنَّهٗ كَانَ ظَلُوْمًا جَهُوْلًا) [ الأحزاب : 72 ] ”بیشک ہم نے امانت کو آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں کے سامنے پیش کیا تو انھوں نے اسے اٹھانے سے انکار کردیا اور اس سے ڈرگئے اور انسان نے اسے اٹھا لیا، بلاشبہ وہ ہمیشہ سے بہت ظالم، بہت جاہل ہے۔“ اور انسان کے فائدے کی مثالوں کے لیے دیکھیے سورة نبا کی ابتدائی آیات اور سورة قصص (71، 72)۔ وَالنُّجُوْمُ مُسَخَّرٰتٌۢ بِاَمْرِهٖ۔۔ : ”وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ“ یہ ”وَسَخَّرَ“ کے مفعول ہونے کی وجہ سے منصوب تھے، ”النُّجُوْمُ مُسَخَّرٰتٌ“ کو مرفوع اور مبتدا و خبر کی صورت میں الگ فرمایا، کیونکہ سیاروں کا معاملہ سورج چاند سے بھی بیحد وسیع ہے۔ انسان کو اب تک جو کچھ معلوم ہوا ہے اس کے مطابق ایک ایک سیارہ اتنا عظیم ہے کہ سورج چاند اس کے مقابلے میں کچھ حیثیت ہی نہیں رکھتے اور ایسی بیشمار کہکشائیں ہیں جن کا ہر سیارہ ہمارے سورج سے بھی بڑا ہے اور ہم سے اتنے دور ہیں کہ لاکھوں نوری سالوں میں بعض کی روشنی اب زمین تک پہنچی ہے اور بعض کی اب بھی نہیں، حالانکہ روشنی کی رفتار ایک لاکھ چھیاسی ہزار میل فی سیکنڈ ہے۔ ہمیں تو ان کے یہی فوائد معلوم ہیں کہ یہ رات کی تاریکی میں چراغ، آسمان کے لیے زینت، شیاطین سے آسمان کی حفاظت کا ذریعہ اور بر و بحر کی ظلمتوں میں راستہ بتانے والے ہیں، مگر جب چاند کی اتنی تاثیر ہے کہ اس کے عروج و زوال سے سمندر جیسی عظیم مخلوق مدو جزر کا شکار ہوجاتی ہے تو ان ستاروں کی کائنات پر تاثیر تو انھیں پیدا کرنے والا ہی جانتا ہے۔ شاہ عبد القادر ؓ لکھتے ہیں : ”(پہلی) چار چیزوں سے تو بندوں کے کام صریح طور پر وابستہ نظر آتے ہیں، مگر ستاروں سے انسانی فوائد کا تعلق ہونا صریح نہ تھا، اس لیے ان کو جدا کردیا۔ (فَتَدَبَّرْ)“ ہاں سورج، چاند یا ستاروں کا تقدیر سے یا غیب کی بات معلوم کرنے سے کوئی تعلق نہیں، نہ ان کے پاس بارش برسانے یا نفع نقصان کا کچھ اختیار ہے۔ جو شخص یہ عقیدہ رکھے وہ رسول اللہ ﷺ کے فرمان کے مطابق اللہ کے ساتھ کفر کرنے والا اور ستاروں پر ایمان رکھنے والا ہے۔ (دیکھیے بخاری : 1038) ستاروں کی تسخیر میں اللہ تعالیٰ کی توحید کی ایک نہیں بہت سی نشانیاں ہیں، اس لیے لفظ آیات جمع ذکر فرمایا، مگر ان کے لیے جو عقل کو استعمال کرتے ہیں، ان کے لیے نہیں جن کا ذکر سورة انفال (22) یا سورة حج (46) وغیرہ میں آیا ہے۔
Top