Al-Quran-al-Kareem - An-Nahl : 126
وَ اِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوْا بِمِثْلِ مَا عُوْقِبْتُمْ بِهٖ١ؕ وَ لَئِنْ صَبَرْتُمْ لَهُوَ خَیْرٌ لِّلصّٰبِرِیْنَ
وَاِنْ : اور اگر عَاقَبْتُمْ : تم تکلیف دو فَعَاقِبُوْا : تو انہیں تکلیف دو بِمِثْلِ : ایسی ہی مَا عُوْقِبْتُمْ : جو تمہیں تکلیف دی گئی بِهٖ : اس سے ۭوَلَئِنْ : اور اگر صَبَرْتُمْ : تم صبر کرو لَهُوَ : تو وہ خَيْرٌ : بہتر لِّلصّٰبِرِيْنَ : صبر کرنے والوں کے لیے
اور اگر تم بدلہ لو تو اتنا ہی بدلہ لو جتنی تمہیں تکلیف دی گئی ہے اور بلاشبہ اگر تم صبر کرو تو یقینا وہ صبر کرنے والوں کے لیے بہتر ہے۔
وَاِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوْا بِمِثْلِ مَا عُوْقِبْتُمْ بِهٖ : واؤ عطف سے معلوم ہوا کہ اس کا تعلق پچھلی آیت سے ہے کہ اگر کوئی تم پر زیادتی کرے تو بدلے میں اتنی زیادتی تم بھی کرو۔ اس آیت سے دو مسئلے واضح طور پر ثابت ہوتے ہیں، ایک یہ کہ قتل وغیرہ کا قصاص اسی طریقے سے لینا جس طریقے سے قاتل نے قتل کیا ہے، جائز ہے اور اس کی تائید اس یہودی سے قصاص والی حدیث سے بھی ہوتی ہے جس نے ایک بچی کا سر دو پتھروں میں کچل دیا تھا، تو آپ ﷺ نے اسے بھی اسی طرح قتل کرنے کا حکم دیا۔ [ دیکھیے مسلم، القسامۃ والمحاربین، باب ثبوت القصاص فی القتل۔۔ : 17؍1672 ] اسی طرح رسول اللہ ﷺ کے حکم سے آپ کے چرواہوں کو قتل کرنے والے اور اونٹنیاں لے جانے والے مجرموں کو بھی قصاص میں اسی طرح آنکھوں میں گرم سلائیاں پھیری گئیں، جیسا کہ انھوں نے کیا تھا۔ [ دیکھیے بخاری، الحدود، باب المحاربین من أہل الکفر و الردۃ : 6802 ] اللہ تعالیٰ کے فرمان کے مطابق ظالم کے ظلم کے برابر بدلہ جائز ہے زیادہ نہیں، فرمایا : (فَمَنِ اعْتَدٰى عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُوْا عَلَيْهِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدٰى عَلَيْكُمْ) [ البقرۃ : 194 ] ”پس جو تم پر زیادتی کرے سو تم اس پر زیادتی کرو، اس کی مثل جو اس نے زیادتی کی۔“ نبی ﷺ نے جو مثلہ کرنے سے منع فرمایا اس سے مراد قصاص کے علاوہ صورتیں ہیں اور ابن ماجہ کی روایت (2667) (لَا قَوَدَ إِلاَّ بالسَّیْفِ) (قصاص تلوار کے سوا جائز نہیں) ثابت نہیں، بلکہ ضعیف ہے، تفصیلی بحث ارواء الغلیل (7؍285، 289، ح : 2229) میں ملاحظہ فرمائیں۔ دوسرا مسئلہ یہ ثابت ہوا کہ اگر کوئی شخص کسی کے مال میں خیانت کرے، یا اس کا مال یا کوئی چیز لے کر واپس نہ دے، پھر مظلوم کو اس کا مال یا کوئی چیز ہاتھ آجائے، یا وہ اس کے پاس امانت رکھے تو اسے اپنے مال کے برابر اس میں سے رکھ لینا جائز ہے۔ امام بخاری ؓ نے ”کِتَابُ الْمَظَالِمِ“ میں ”بَابُ قِصَاصِ الْمَظْلُوْمِ إِذَا وَجَدَ مَالَ ظَالِمِہِ“ (مظلوم کا قصاص لینا جب اسے اس پر ظلم کرنے والے کا مال مل جائے) میں اسی آیت سے ابن سیرین ؒ کا یہ استدلال نقل فرمایا ہے اور مزید احادیث سے اسے مدلل کیا ہے۔ بعض لوگ ایک روایت کی بنا پر اسے منع کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا : (أَدِّ الْأَمَانَۃَ إِلٰی مَنِ اءْتَمَنَکَ وَلاَ تَخُنْ مَنْ خَانَکَ) [ أبوداوٗد، البیوع، باب في الرجل یأخذ حقہ من تحت یدہ : 3535 ] ”جو شخص تمہارے پاس امانت رکھے اس کی امانت ادا کرو اور جو تمہاری خیانت کرے اس کی خیانت مت کرو۔“ اگرچہ اس حدیث پر کلام ہے، مگر صحیح ماننے کی صورت میں بھی اپنا مال واپس لینے کو خیانت نہیں کہا جاسکتا۔ حافظ ابن حزم ؓ نے ”المحلٰی“ کی ”کتاب التفلیس“ کے آخر میں اس مسئلہ پر نہایت عمدہ بحث تحریر فرمائی ہے، جو پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ وَلَىِٕنْ صَبَرْتُمْ لَهُوَ خَيْرٌ لِّلصّٰبِرِيْنَ : کیونکہ اللہ تعالیٰ ظالم سے انھیں ان کا بدلہ خود لے کر دے گا اور اپنے ہاں سے انھیں صبر کا اجر عظیم عطا فرمائے گا، اللہ نے فرمایا : (وَالَّذِيْنَ اِذَآ اَصَابَهُمُ الْبَغْيُ هُمْ يَنْتَصِرُوْنَ 39؀ وَجَزٰۗؤُا سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِّثْلُهَا ۚ فَمَنْ عَفَا وَاَصْلَحَ فَاَجْرُهٗ عَلَي اللّٰهِ ۭ اِنَّهٗ لَا يُحِبُّ الظّٰلِمِيْنَ) [ الشوری : 39، 40 ] ”اور وہ لوگ کہ جب ان پر زیادتی واقع ہوتی ہے وہ بدلہ لیتے ہیں۔ اور کسی برائی کا بدلہ اس کی مثل ایک برائی ہے، پھر جو معاف کر دے اور اصلاح کرلے تو اس کا اجر اللہ کے ذمے ہے، بیشک وہ ظالموں سے محبت نہیں کرتا۔“ صحیح بخاری میں ابراہیم نخعی کا قول ہے کہ وہ (صحابہ کرام) ذلت قبول کرنے کو ناپسند کرتے تھے، مگر جب قدرت پالیتے تو معاف کردیتے تھے۔ [ دیکھیے بخاری، المظالم، باب الانتصار من الظالم، بعد ح : 2446 ] شاہ عبد القادر ؓ نے ”اُدْعُ اِلٰى سَبِيْلِ رَبِّكَ“ سے لے کر یہاں تک کا خلاصہ بیان فرمایا : ”پہلے جو فرمایا سمجھاؤ بھلی طرح سے، اس میں رخصت دی کہ بدی کے بدلے بدی بری نہیں، مگر صبر زیادہ بہتر ہے۔“ (موضح)
Top