Al-Quran-al-Kareem - An-Nahl : 17
اَفَمَنْ یَّخْلُقُ كَمَنْ لَّا یَخْلُقُ١ؕ اَفَلَا تَذَكَّرُوْنَ
اَفَمَنْ : کیا۔ پس جو يَّخْلُقُ : پیدا کرے كَمَنْ : اس جیسا جو لَّا يَخْلُقُ : پیدا نہیں کرتا اَفَلَا تَذَكَّرُوْنَ : کیا۔ پس تم غور نہیں کرتے
تو کیا وہ جو پیدا کرتا ہے، اس کی طرح ہے جو پیدا نہیں کرتا ؟ پھر کیا تم نصیحت حاصل نہیں کرتے۔
اَفَمَنْ يَّخْلُقُ كَمَنْ لَّا يَخْلُقُ۔۔ : یہ سب نعمتیں جو ذکر ہوئیں، سب جانتے اور مانتے ہیں کہ ایک اللہ کی پیدا کردہ ہیں اور جنھیں مشرکین پکارتے ہیں انھوں نے نہ کچھ پیدا کیا ہے، نہ کرسکتے ہیں، حتیٰ کہ اس کا دعویٰ بھی نہیں کرسکتے (دیکھیے سورة حج : 73) تو یہ بتاؤ کہ ہر چیز کے خالق کو تم نے ان بےبس ہستیوں کے برابر کردیا جو مکھی کا پر بھی نہیں بنا سکتیں، تو کیا یہ بات تمہاری سمجھ میں نہیں آتی۔ سچ ہے : (وَمَا قَدَرُوا اللّٰهَ حَقَّ قَدْرِهٖ) [ الأنعام : 91 ] ”انھوں نے اللہ کی قدر ہی نہیں کی جو اس کی قدر کا حق تھا۔“ یہ مضمون مفصل سورة رعد (16) میں ملاحظہ فرمائیں۔ علامہ زمخشری نے یہاں سوال اٹھایا ہے کہ ”مَنْ“ کا لفظ تو ذوی العقول کے لیے ہوتا ہے، یہاں بتوں کے لیے کیوں استعمال ہوا، پھر جواب دیا ہے کہ چونکہ مشرکین انھیں حاجت روا، مشکل کشا سمجھتے تھے، اس لیے ان کے عقیدے کے مطابق ”كَمَنْ لَّا يَخْلُقُ“ فرمایا ہے۔ حالانکہ اس کا سادہ اور صحیح جواب یہ ہے کہ وہ محض پتھروں کو نہیں پوجتے تھے، بلکہ ان ہستیوں کو پکارتے تھے جن کے وہ بت بناتے تھے، مثلاً انھوں نے مریم، ابراہیم اور اسماعیل کے مجسّمے بیت اللہ کے اندر رکھے ہوئے تھے اور ان کے ہاتھوں میں فال کے تیر پکڑائے ہوئے تھے۔ [ دیکھیے بخاری، أحادیث الأنبیاء، باب قول اللہ تعالیٰ : (و اتخذ اللہ إبراہیم خلیلا) : 3351، 3352 ] قوم نوح کے بت بھی اولیاء اللہ ہی کے مجسمے تھے۔ دیکھیے تفسیر سورة نوح (23) یہ سب ذوی العقول تھے، بلکہ ذوی العقول کے استاد تھے، اس لیے زمخشری نے جو سوال اٹھایا ہے وہ پیدا ہی نہیں ہوتا۔
Top