Al-Quran-al-Kareem - An-Nahl : 22
اِلٰهُكُمْ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ١ۚ فَالَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَةِ قُلُوْبُهُمْ مُّنْكِرَةٌ وَّ هُمْ مُّسْتَكْبِرُوْنَ
اِلٰهُكُمْ : تمہارا معبود اِلٰهٌ : معبود وَّاحِدٌ : ایک (یکتا) فَالَّذِيْنَ : پس جو لوگ لَا يُؤْمِنُوْنَ : ایمان نہیں رکھتے بِالْاٰخِرَةِ : آخرت پر قُلُوْبُهُمْ : ان کے دل مُّنْكِرَةٌ : منکر (انکار کرنیوالے) وَّهُمْ : اور وہ مُّسْتَكْبِرُوْنَ : تکبر کرنے والے (مغرور)
تمہارا معبود ایک ہی معبود ہے، پس وہ لوگ جو آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ان کے دل انکار کرنے والے ہیں اور وہ بہت تکبر کرنے والے ہیں۔
اِلٰـهُكُمْ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ۔۔ : گزشتہ تمام دلائل اور احسانات بیان کرنے کے بعد ان کا نتیجہ اور خلاصہ بیان فرمایا کہ تمہارا معبود جس کی عبادت حق ہے، وہ ایک ہی ہے۔ ”وَّاحِدٌ“ کا مطلب ہے کہ وہ ایک ہے، کوئی اس کا ثانی یا شریک نہیں، نہ ذات میں نہ صفات میں۔ آگے وہ اسباب بیان کیے جو انسان کو توحید سے پھسلا کر شرک کی طرف لے جاتے ہیں، یہ اسباب درج ذیل ہیں : 1 ان میں سے پہلا سبب آخرت پر ایمان نہ ہونا ہے۔ آیت میں مشرکین ہی کو ”فَالَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ بالْاٰخِرَةِ“ فرمایا ہے، اگر یقین ہو کہ اللہ تعالیٰ نے زندہ کرکے باز پرس کرنی ہے اور وہاں جزا و سزا صرف اس کے ہاتھ میں ہوگی، کسی دوسرے کا دخل نہ ہوگا تو آدمی کسی اور کو کس طرح اس کے ساتھ شریک کرسکتا ہے۔ اس لیے آخرت کے منکر اللہ اکیلے کا ذکر سن ہی نہیں سکتے، جیسا کہ فرمایا : (وَاِذَا ذُكِرَ اللّٰهُ وَحْدَهُ اشْمَاَزَّتْ قُلُوْبُ الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ بالْاٰخِرَةِ ۚ وَاِذَا ذُكِرَ الَّذِيْنَ مِنْ دُوْنِهٖٓ اِذَا هُمْ يَسْتَبْشِرُوْنَ) [ الزمر : 45 ] ”اور جب اس اکیلے اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو ان لوگوں کے دل تنگ پڑجاتے ہیں جو آخرت پر یقین نہیں رکھتے اور جب ان کا ذکر ہوتا ہے جو اس کے سوا ہیں تو وہ بہت خوش ہوجاتے ہیں۔“ 2 دوسرا سبب یہ کہ ان کے دل انکار کرنے والے ہیں، وہ نہ کسی دلیل کو مانتے ہیں نہ اللہ کی تمام نعمتیں جاننے کے باوجود کوئی نعمت تسلیم کرتے ہیں، جیسا کہ فرمایا : (يَعْرِفُوْنَ نِعْمَتَ اللّٰهِ ثُمَّ يُنْكِرُوْنَهَا) [ النحل : 83 ] ”وہ اللہ کی نعمت کو پہچانتے ہیں، پھر اس کا انکار کرتے ہیں۔“ وہ مسخ ہوچکے ہیں اور ان پر مہر لگ چکی ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (خَتَمَ اللّٰهُ عَلٰي قُلُوْبِهِمْ وَعَلٰي سَمْعِهِمْ ۭ وَعَلٰٓي اَبْصَارِهِمْ غِشَاوَةٌ) [ البقرۃ : 7 ] ”اللہ نے ان کے دلوں پر اور ان کے کانوں پر مہر لگا دی اور ان کی نگاہوں پر بھاری پردہ ہے۔“ حذیفہ ؓ کی حدیث میں ان کی مثال الٹے کوزے کی دی گئی ہے، جس میں کوئی چیز داخل نہیں ہوتی، چناچہ وہ دل نہ نیکی کو نیکی سمجھتے ہیں نہ برائی کو برائی، سوائے ان کی اپنی خواہش کے جس کی محبت انھیں پلا دی گئی ہے۔ [ مسلم، الإیمان، باب رفع الأمانۃ و الإیمان۔۔ : 144 ] 3 تیسرا سبب ان کا استکبار یعنی اپنے آپ کو بہت بڑا سمجھنا ہے۔ ان کا تکبر انھیں کوئی خیر خواہی کی بات نہ سننے دیتا ہے نہ ماننے دیتا ہے اور یہی ان کی تمام بیماریوں کی جڑ ہے اور یہ ایسی خطرناک چیز ہے کہ عبداللہ بن مسعود ؓ نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں، آپ نے فرمایا : (لَا یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ مَنْ کَانَ فِيْ قَلْبِہِ مِثْقَالُ ذَرَّۃٍ مِنْ کِبْرٍ ، قَالَ رَجُلٌ إِنَّ الرَّجُلَ یُحِبُّ أَنْ یَکُوْنَ ثَوْبُہُ حَسَنًا، وَنَعْلُہُ حَسَنَۃً. قَالَ إِنَّ اللّٰہَ جَمِیْلٌ یُحِبُّ الْجَمَالَ ، الْکِبْرُ بَطَرُ الْحَقِّ وَغَمْطُ النَّاسِ) [ مسلم، الإیمان، باب تحریم الکبر و بیانہ : 91 ]”وہ شخص جنت میں داخل نہیں ہوگا جس کے دل میں ذرہ برابر کبر ہوگا۔“ ایک آدمی نے کہا : ”آدمی پسند کرتا ہے کہ اس کا کپڑا اچھا ہو، اس کا جوتا اچھا ہو۔“ آپ نے فرمایا : ”بیشک اللہ تعالیٰ جمیل ہے، جمال کو پسند کرتا ہے، کبر حق کو تسلیم نہ کرنا اور لوگوں کو حقیر جاننا ہے۔“
Top