Al-Quran-al-Kareem - An-Nahl : 4
خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ نُّطْفَةٍ فَاِذَا هُوَ خَصِیْمٌ مُّبِیْنٌ
خَلَقَ : پیدا کیا اس نے الْاِنْسَانَ : انسان مِنْ : سے نُّطْفَةٍ : نطفہ فَاِذَا : پھر ناگہاں هُوَ : وہ خَصِيْمٌ : جھگڑا لو مُّبِيْنٌ : کھلا
اس نے انسان کو ایک قطرے سے پیدا کیا، پھر اچانک وہ کھلم کھلا جھگڑنے والا ہے۔
خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ نُّطْفَةٍ فَاِذَا هُوَ خَصِيْمٌ مُّبِيْنٌ۔۔ : ”نَطَفَ“ (ض، ن) ٹپکنا۔ ”نُّطْفَةٍ“ قطرہ۔ تاء تحقیر کے لیے ہے، یعنی حقیر اور معمولی قطرے سے۔ ”خَصِيْمٌ“ مبالغے کا صیغہ ہے۔ زمین و آسمان کے بعد ان میں پیدا کردہ چیزیں توحید کی دلیل کے طور پر پیش فرمائیں، سب سے پہلے انسان کا ذکر فرمایا، یہی بات سورة یس میں تفصیل سے بیان فرمائی، فرمایا : (اَوَلَمْ يَرَ الْاِنْسَانُ اَنَّا خَلَقْنٰهُ مِنْ نُّطْفَةٍ فَاِذَا هُوَ خَصِيْمٌ مُّبِيْنٌ وَضَرَبَ لَنَا مَثَلًا وَّنَسِيَ خَلْقَهٗ ۭ قَالَ مَنْ يُّـحْيِ الْعِظَامَ وَهِىَ رَمِيْمٌ) [ یٰسٓ : 77، 78 ] ”اور کیا انسان نے نہیں دیکھا کہ بیشک ہم نے اسے ایک قطرے سے پیدا کیا تو اچانک وہ کھلا جھگڑنے والا ہے اور اس نے ہمارے لیے ایک مثال بیان کی اور اپنی پیدائش کو بھول گیا، اس نے کہا، کون ہڈیوں کو زندہ کرے گا، جبکہ وہ بوسیدہ ہوں گی ؟“ ”إِذَا“ فجائیہ ”اچانک“ کے معنی میں آتا ہے، یعنی ایسی عجیب چیز کا وجود میں آنا جس کا وہم و گمان بھی نہ ہو، یعنی اگر یاد رکھتا تو ایک حقیر قطرے سے مختلف اطوار سے گزر کر وجود میں آنے والے انسان سے اس جھگڑے کی توقع ہی نہ کی جاسکتی تھی، بلکہ حق یہ تھا کہ وہ اپنی پیدائش کو یاد رکھتا۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آیت کے دونوں حصوں سے اللہ تعالیٰ کے کمال قدرت پر استدلال مقصود ہو، یعنی نطفہ سے پیدا کیا، پھر اس میں کامل طور پر ساری قوتیں یعنی سوچنے سمجھنے کی اور بولنے کی پیدا کردیں کہ حجت و استدلال اور بحث کے قابل ہوگیا۔ (روح المعانی)
Top