Al-Quran-al-Kareem - An-Nahl : 9
وَ عَلَى اللّٰهِ قَصْدُ السَّبِیْلِ وَ مِنْهَا جَآئِرٌ١ؕ وَ لَوْ شَآءَ لَهَدٰىكُمْ اَجْمَعِیْنَ۠   ۧ
وَ : اور عَلَي اللّٰهِ : اللہ پر قَصْدُ : سیدھی السَّبِيْلِ : راہ وَمِنْهَا : اور اس سے جَآئِرٌ : ٹیڑھی وَلَوْ شَآءَ : اور اگر وہ چاہے لَهَدٰىكُمْ : تو وہ تمہیں ہدایت دیتا اَجْمَعِيْنَ : سب
اور سیدھا راستہ اللہ ہی پر (جا پہنچتا) ہے اور ان میں سے کچھ (راستے) ٹیڑھے ہیں اور اگر وہ چاہتا تو ضرور تم سب کو ہدایت دے دیتا۔
وَعَلَي اللّٰهِ قَصْدُ السَّبِيْلِ وَمِنْهَا جَاۗىِٕرٌ ۭ وَلَوْ شَاۗءَ لَهَدٰىكُمْ اَجْمَعِيْنَ۔۔ : چند انسانی ضروریات کا ذکر فرما کر سب سے ضروری چیز یعنی صحیح راستہ بتانے کے اہتمام کا خاص طور پر ذکر فرمایا، کیونکہ یہ نہیں تو کچھ بھی نہیں۔ اسی لیے ہم ہر نماز میں یہی دعا کرتے ہیں : (ۭاِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَـقِيْمَ) [ الفاتحۃ : 5 ] ”ہمیں سیدھے راستے پر چلا۔“ ”قَصْدُ“ کا معنی سیدھا ہونا۔ ”اَلسَّبِیْل“ کا معنی راستہ، تو ”قَصْدُ السَّبِيْلِ“ سیدھا راستہ جس میں کوئی کجی نہ ہو۔ اسے ”سبیل قصد“ بھی کہتے ہیں اور ”سبیل قاصد“ بھی۔ گویا ”قَصْدُ“ مصدر بمعنی اسم فاعل ہے جو موصوف کی طرف مضاف ہے۔ یہ بات طے ہے کہ دو نقطوں کے درمیان سب سے مختصر خط مستقیم ہی ہوتا ہے، یعنی اپنے بندوں کی سیدھے راستے کی طرف راہنمائی کرنا اللہ ہی کے ذمے ہے اور یہ ذمہ خود اس نے اپنے فضل سے اٹھایا ہے، کسی کا اس پر جبر نہیں۔ یا ترجمہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ سیدھا راستہ اللہ تعالیٰ تک پہنچنے والا ہے، یعنی انسان فطرت پر قائم رہے تو خود بخود توحید الٰہی کا قائل ہوجاتا ہے۔ اس میں اشارہ ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے انسان کے لیے جسمانی ضروریات پوری کرنے کا سامان بہم پہنچایا ہے، اسی طرح اس کی ہدایت کا راستہ بھی متعین کردیا ہے۔ 3 جب زندگی عطا کرنے والے نے خود راستہ متعین کردیا تو مفکروں، فلسفیوں اور قانون سازوں کو دستور سازی یا قانون سازی کی تکلیف سے گریز کرنا چاہیے، کیونکہ ان کا علم ہر چیز کا احاطہ نہیں کرتا، اس لیے ان کے بنائے ہوئے دستور و قانون بدلتے رہتے ہیں اور ہمیشہ انسان کی بربادی ہی کا باعث بنتے ہیں۔ حکام کا کام دستور سازی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے دستور و قانون کو عملاً نافذ کرنا ہے۔ افسوس کہ کفار کی کئی سو سالہ محنت کے نتیجے میں مسلمانوں نے آخر اللہ تعالیٰ کا منصب خود سنبھال لیا اور خلافت ختم کرکے جمہوریت کے نام پر خود دستور ساز اور قانون ساز بن بیٹھے۔ اب نام ان کا مسلم ہے، مگر نظام ان کا اللہ تعالیٰ سے بغاوت اور کفار کے حکم یا اپنی خواہش پر عمل ہے۔ وَمِنْهَا جَاۗىِٕرٌ : ”جَارَ عَنِ الطَّرِیْقِ“ راستے سے ہٹ گیا۔ ”جَاۗىِٕرٌ“ اسم فاعل ہے، وہ تمام راستے جو اللہ کی طرف سے نہیں ہیں، یعنی نہ قرآن سے ثابت ہیں نہ حدیث سے، وہ سب صراط مستقیم سے ہٹے ہوئے ہیں اور انھیں اختیار کرنے والے گمراہ ہیں۔ وَلَوْ شَاۗءَ لَهَدٰىكُمْ اَجْمَعِيْنَ : مگر اس سے انسان کو پیدا کرنے کا اصل مقصد جو آزمائش ہے، وہ فوت ہوجاتا، اس لیے کہ جس حد تک راہ دکھانے کا تعلق تھا وہ تو پیغمبر بھیج کر اور کتابیں اتار کر پورا کردیا، مگر اس راہ پر چلنا انسان کے اختیار پر چھوڑ دیا، تاکہ اس کے اعمال کے مطابق اسے جزا یا سزا دی جاسکے۔
Top