Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Al-Quran-al-Kareem - Al-Israa : 1
سُبْحٰنَ الَّذِیْۤ اَسْرٰى بِعَبْدِهٖ لَیْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَى الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا الَّذِیْ بٰرَكْنَا حَوْلَهٗ لِنُرِیَهٗ مِنْ اٰیٰتِنَا١ؕ اِنَّهٗ هُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ
سُبْحٰنَ
: پاک
الَّذِيْٓ
: وہ جو
اَسْرٰى
: لے گیا
بِعَبْدِهٖ
: اپنے بندہ کو
لَيْلًا
: راتوں رات
مِّنَ
: سے
الْمَسْجِدِ
: مسجد
الْحَرَامِ
: حرام
اِلَى
: تک
الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا
: مسجد اقصا
الَّذِيْ
: جس کو
بٰرَكْنَا
: برکت دی ہم نے
حَوْلَهٗ
: اس کے ارد گرد
لِنُرِيَهٗ
: تاکہ دکھا دیں ہم اس کو
مِنْ اٰيٰتِنَا
: اپنی نشانیاں
اِنَّهٗ
: بیشک وہ
هُوَ
: وہ
السَّمِيْعُ
: سننے والا
الْبَصِيْرُ
: دیکھنے والا
پاک ہے وہ جو رات کے ایک حصے میں اپنے بندے کو حرمت والی مسجد سے بہت دور کی اس مسجد تک لے گیا جس کے اردگرد کو ہم نے بہت برکت دی ہے، تاکہ ہم اسے اپنی کچھ نشانیاں دکھائیں۔ بلاشبہ وہی سب کچھ سننے والا، سب کچھ دیکھنے والا ہے۔
سُبْحٰنَ الَّذِيْٓ اَسْرٰى بِعَبْدِهٖ : اس سورت کی ابتدا اللہ تعالیٰ کو ہر ایسی چیز سے پاک قرار دینے سے کی جو اس کے جلال کے لائق نہیں، چناچہ فرمایا : (سُبْحٰنَ الَّذِيْٓ اَسْرٰى بِعَبْدِهٖ) طنطاوی نے فرمایا، اس کی سب سے اچھی نحوی ترکیب یہ ہے کہ ”سُبْحٰنَ“ اسم مصدر ہے اور فعل محذوف ”سَبَّحْتُ“ یا ”اُسَبِّحُ“ کا مفعول مطلق ہے اور ”الَّذِيْٓ“ کی طرف مضاف ہے، یعنی میں اس (اللہ) کا ہر عیب اور کمی سے پاک ہونا بیان کرتا ہوں جو اپنے بندے۔۔ (التفسیر الوسیط) معلوم ہوا کہ آگے کوئی ایسا کام بیان ہونے والا ہے جس کا واقع ہونا انسانی طاقت سے باہر ہے، اس لیے بات یہیں سے شروع فرمائی کہ اللہ تعالیٰ ان تمام عیبوں، کمزوریوں اور نارسائیوں سے پاک ہے جو مخلوق میں پائی جاتی ہیں اور وہ ان کاموں پر قادر ہے جن پر اس کے سوا کوئی قدرت نہیں رکھتا۔ اَسْرٰى : شیخ سلیمان الجمل نے فرمایا : ”اَسْرٰى“ اور ”سَرٰی“ دونوں کا معنی ہے، وہ رات کو چلا، دونوں فعل لازم ہیں، پہلے کا مصدر ”اَلإِْسْرَاءُ“ ہے اور دوسرے کا ”اَلسُّرٰی“ بروزن ”اَلْھُدٰی“ ، اس لیے اسے متعدی بنانے کے لیے ”بِعَبْدِهٖ“ میں باء لائی گئی ہے، جس سے معنی ”وہ رات کو چلا“ کے بجائے ”اس نے (اپنے بندے کو) رات کو چلایا“ ہوگیا۔“ اس سے رات کی فضیلت بھی ثابت ہوتی ہے، رسول اللہ ﷺ کا راتوں کو قیام، دعائیں، اسراء و معراج، راتوں کا سفر سب اس کی دلیل ہیں۔ بِعَبْدِهٖ : ”اپنے بندے“ کا لفظ اس محبت اور تعلق کو ظاہر کرنے کے لیے استعمال کیا گیا ہے جو اللہ تعالیٰ کو اپنے آخری پیغمبر محمد ﷺ سے ہے۔ اہل علم فرماتے ہیں کہ اگر پیار و محبت اور آپ کی عظمت و شان کے اظہار کے لیے اس سے زیادہ یہاں کوئی لفظ موزوں ہوتا تو اللہ تعالیٰ اسی کو ذکر فرماتا، لفظ ”عَبْدٌ“ منتخب ہی اس لیے فرمایا کہ تمام مخلوقات کی صفات میں سب سے اونچی اور بڑی صفت اللہ تعالیٰ کی عبودیت اور بندگی ہے، پھر خاص اپنی طرف نسبت کرکے مزید رتبہ بڑھا دیا۔ رسول اللہ ﷺ کو اپنا عبد (بندہ، غلام) قرار دینے میں یہ بھی اشارہ ہے کہ مالک اور معبود صرف اللہ تعالیٰ ہے، باقی سب اس کے بندے، غلام، اس کے سامنے عاجز اور مطیع ہیں، کیونکہ ”عَبْدٌ“ کا معنی یہی ہے، جیسا کہ فرمایا : (اِنْ كُلُّ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ اِلَّآ اٰتِي الرَّحْمٰنِ عَبْدًا) [ مریم : 93 ] ”زمین و آسمان میں جو کوئی بھی ہے وہ رحمٰن کے پاس غلام بن کر آنے والا ہے۔“ مقصد یہ ہے کہ عبودیت اور الوہیت، یعنی بندگی اور خدائی کے مقام کا فرق بالکل واضح ہوجائے، انھیں ایک نہ سمجھ لیا جائے، جیسا کہ مسیحیت میں ہوا کہ انھوں نے اللہ تعالیٰ کو، عیسیٰ ؑ کو اور ان کی والدہ کو ایک ہی معبود قرار دے دیا، انھوں نے عبودیت اور الوہیت کے فرق کو نہ سمجھا۔ بعض جھوٹے مسلمانوں نے بھی احد اور احمد کو ایک قرار دے لیا۔ یہ آیت ان کی واضح تردید کرتی ہے۔ علامہ قاسمی نے امام ابن قیم ؓ کی کتاب ”طَرِیْقُ الْہِجْرَتَیْنِ“ سے نقل فرمایا کہ تمام مخلوق میں سے کامل وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی عبودیت (بندگی) میں سب سے کامل ہے اور رسول اللہ ﷺ پوری مخلوق میں سے اللہ تعالیٰ کے زیادہ قریب اور بلند مرتبہ تھے، آپ ﷺ فرماتے تھے : (وَاللّٰہِ ! مَا أُحِبُّ أَنْ تَرْفَعُوْنِيْ فَوْقَ مَنْزِلَتِيَ الَّتِيْ أَنْزَلَنِيَ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ) [ مسند أحمد : 3؍153: 12558، سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ : 1097، عن أنس ]”اللہ کی قسم ! اے لوگو ! میں پسند نہیں کرتا کہ تم مجھے میرے اس مرتبے سے بلند قرار دو جو مجھے اللہ عزوجل نے عطا کیا ہے۔“ اور آپ ﷺ فرماتے تھے : (لَا تُطْرُوْنِيْ کَمَا أَطْرَتِ النَّصَارَی ابْنَ مَرْیَمَ فَإِنَّمَا أَنَا عَبْدُہُ فَقُوْلُوْا عَبْدُ اللّٰہِ وَ رَسُوْلُہُ) [ بخاری، أحادیث الأنبیاء، باب قول اللّٰہ تعالیٰ : (واذکر فی الکتاب مریم۔۔) : 3445 ] ”مجھے اس طرح حد سے نہ بڑھاؤ جیسا کہ نصاریٰ نے مسیح ابن مریم کو حد سے بڑھا دیا، میں تو صرف اس کا عبد (بندہ) ہوں، سو تم مجھے اللہ کا بندہ اور اس کا رسول کہو۔“ اللہ تعالیٰ نے آپ کا ذکر آپ کے بلند ترین مقام اسراء و معراج میں عبودیت کے نام سے فرمایا، چناچہ فرمایا : (سُبْحٰنَ الَّذِيْٓ اَسْرٰى بِعَبْدِهٖ) اور دعوت کے مقام میں فرمایا : (وَّاَنَّهٗ لَمَّا قَامَ عَبْدُ اللّٰهِ يَدْعُوْهُ كَادُوْا يَكُوْنُوْنَ عَلَيْهِ لِبَدًا) [ الجن : 19 ] اور چیلنج کے مقام میں فرمایا : (وَاِنْ كُنْتُمْ فِىْ رَيْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلٰي عَبْدِنَا) [ البقرۃ : 23 ] لَيْلًا : زمحشری نے فرمایا، اگر تم کہو کہ ”إِسْرَاءٌ“ کا معنی ہی رات کو چلنا ہے، پھر ”لَيْلًا“ کہنے کا مقصد کیا ہے ؟ تو میں کہتا ہوں کہ ”لَيْلًا“ کا لفظ نکرہ کی صورت میں لانے سے رات کی اس مدت کو جس میں سفر کیا، کم بتانا مقصود ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو رات کے ایک تھوڑے سے حصے میں مکہ سے شام تک کا چالیس راتوں کا فاصلہ طے کروا دیا، کیونکہ تنکیر یہاں بعضیہ (بلکہ بقول بعض تقلیل و تحقیر) کا معنی دے رہی ہے (یہ بات ترجمہ میں بھی ملحوظ رکھی گئی ہے)۔ یاد رہے ! چالیس راتوں یا ایک مہینے سے زائد دنوں کا سفر ایک طرف کا ہے، آنے جانے کا دگنا سمجھ لیں۔ مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَى الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا : مسجد حرام کعبہ کے اردگرد والی مسجد، کیونکہ اسے کئی طرح کی حرمت حاصل ہے۔ بعض علماء پورے حرم کو مسجد حرام کہتے ہیں۔ جس رات یہ سفر ہوا آپ ﷺ ام ہانی ؓ کے گھر سوئے ہوئے تھے۔ وہاں سے آپ کو حطیم کعبہ میں لایا گیا اور پھر آپ حطیم سے براق پر سوار ہو کر مسجد اقصیٰ (دور ترین مسجد) یعنی بیت المقدس پہنچے، اس وقت مکہ سے سب مسجدوں سے دور پائی جانے والی مسجد یہی تھی، چونکہ سفر کی ابتدا حطیم سے ہوئی، اس لیے کئی علماء صرف مسجد کے حصے ہی کو مسجد حرام کہتے ہیں۔ بیت المقدس سے معراج (سیڑھی) کے ذریعے سے اوپر ساتوں آسمانوں سے گزر کر سدرۃ المنتہیٰ پہنچے، راستے میں متعدد جلیل القدر انبیاء ؑ سے ملاقاتیں ہوئیں، جنت و دوزخ کا مشاہدہ بھی کیا، سدرہ کے پاس ہی جبریل ؑ کو ان کی اصل صورت میں دیکھا، وہیں آپ کو پہلے پچاس نمازوں اور آخر میں روزانہ پانچ نمازوں کا حکم ہوا، پھر پلٹ کر بیت المقدس آئے تو آپ نے امام بن کر تمام انبیاء ؑ کے ساتھ نماز ادا کی۔ ابن کثیر ؓ نے اسی کو ترجیح دی ہے، لیکن قاضی عیاض وغیرہ کا خیال ہے کہ انبیاء کی امامت آپ نے واپسی پر نہیں بلکہ معراج کو جاتے ہوئے کروائی ہے۔ بہرحال اس کے بعد مسجد حرام تشریف لائے۔ واقعۂ اسراء و معراج کی تفصیلات کے لیے تفسیر ابن کثیر اور کتب احادیث کا مطالعہ فرمائیں۔ حافظ ابن کثیر ؓ نے بڑی تفصیل، ترتیب اور سلیقے سے روایات جمع فرما دی ہیں۔ 3 مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک کے سفر کا نام ”اسراء“ ہے، جو یہاں مذکور ہے اور وہاں سے سدرۃ المنتہیٰ تک کا سفر ”معراج“ کہلاتا ہے۔ اس کا ذکر سورة نجم اور کتب احادیث میں ہے۔ حافظ ابن کثیر ؓ نے اس آیت کی تفسیر میں بہت سی احادیث مع سند ذکر فرمائی ہیں، ان میں سے بعض روایات کے آخر میں فرمایا کہ امام بیہقی ؓ نے فرمایا : ”اس حدیث کے الفاظ دلیل ہیں کہ معراج اسی رات ہوئی ہے جب آپ مکہ سے بیت المقدس گئے ہیں اور یہی حق ہے جس میں کوئی شک و شبہ نہیں۔“ 3 قرطبی نے فرمایا کہ اسراء کا واقعہ حدیث کی تمام کتابوں میں ثابت ہے اور اسلام کے زیر نگیں تمام علاقوں کے صحابہ سے مروی ہے، اس لحاظ سے یہ متواتر ہے۔ نقاش نے اسے نقل کرنے والے بیس صحابہ ذکر کیے ہیں۔ گو بعض جزئیات میں اختلاف ہے مگر اصل واقعہ بلاشک و شبہ ثابت ہے۔ (قرطبی) 3 علمائے سلف و خلف کا عقیدہ ہے کہ یہ واقعہ بیداری میں روح اور جسم سمیت پیش آیا اور قرآن میں لفظ ”بعبدہ“ سے بھی اس کی شہادت ملتی ہے، کیونکہ عبد صرف روح کو نہیں کہتے، بلکہ روح مع جسد کو کہتے ہیں۔ پھر اگر یہ خواب کا واقعہ ہوتا تو کفار قریش اسے نہ جھٹلاتے، کیونکہ خواب میں تو ہر ایک کو عجیب و غریب واقعات پیش آتے رہتے ہیں اور نہ قرآن ہی ”سُبْحٰنَ الَّذِيْٓ“ کی تمہید کے ساتھ اسے بیان کرتا، کیونکہ ان تمہیدی الفاظ سے تو معلوم ہوتا ہے کہ کوئی اہم اور خرق عادت واقعہ بیان کیا جا رہا ہے، پھر ”لِنُرِیَهٗ مِنْ اٰیَاتِنَا“ اور ”ۙمَا زَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغٰى“ (نجم : 17) میں بھی سر کی آنکھوں سے دیکھنے کا ذکر ہے، پھر براق پر سواری بھی جسمانی معراج کی دلیل ہے۔ بعض علماء نے آیت کریمہ : (وَمَا جَعَلْنَا الرُّءْيَا الَّتِيْٓ اَرَيْنٰكَ اِلَّا فِتْنَةً لِّلنَّاسِ) [ بنی إسرائیل : 60 ] میں لفظ ”اَلرُّوْیَا“ سے استدلال کیا ہے کہ یہ خواب کا واقعہ ہے، مگر محققین علمائے لغت نے تصریح کی ہے کہ لفظ ”اَلرُّوْیَا“ (جو ”رَأَی یَرَی“ کا مصدر ہے) بیداری میں آنکھوں کے دیکھنے پر بھی استعمال ہوتا ہے، یہاں یہی مراد ہے اور عبداللہ بن عباس ؓ نے تصریح فرمائی ہے : (ھِیَ رُؤْیَا عَیْنٍ أُرِیَھَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ لَیْلَۃَ أُسْرِيَ بِہِ إِلٰی بَیْتِ الْمَقْدِسِ) [ بخاری، مناقب الأنصار، باب المعراج : 3888 ] ”یہ آنکھوں کا دیکھنا تھا جو رسول اللہ ﷺ کو اس رات دکھایا گیا جس رات آپ کو بیت المقدس لے جایا گیا۔“ معلوم ہوا کہ اس آیت سے ان علماء کا استدلال درست نہیں ہے، تمام صحابہ روایتاً و درایتاً اس پر متفق ہیں کہ آپ ﷺ کو معراج بیداری کی حالت میں ہوئی اور جسم کے ساتھ ہوئی۔ صرف عائشہ اور معاویہ ؓ سے مروی ہے کہ معراج خواب میں ہوئی، مگر ایک تو یہ روایت سنداً منقطع ہے اور پھر ان کی اپنی رائے اور آیت کریمہ (وَمَا جَعَلْنَا الرُّءْيَا الَّتِيْٓ اَرَيْنٰكَ) [ بنی إسرائیل : 60 ] سے استدلال ہے جو صحابہ کے متفقہ فیصلے کے مقابلے میں توجہ کے قابل نہیں۔ (شوکانی، ابن کثیر) 3 علامہ جمال الدین قاسمی کے بیان کا خلاصہ یہ ہے کہ اکثر اہل علم کا کہنا ہے کہ اسراء بعثت نبوی کے بعد ہوا ہے اور یہ کہ وہ ہجرت سے ایک سال پہلے تھا۔ زہری اور ابن سعد وغیرہ کا یہی کہنا ہے، امام نووی نے بھی یہ بات یقین سے کہی ہے، ابن حزم ؓ نے مبالغہ کرتے ہوئے اس پر اجماع نقل فرمایا ہے اور کہا ہے کہ یہ (اسراء و معراج) رجب 12 نبوی میں ہوئی ہے۔ طبیعت کو اطمینان اس بات پر ہوتا ہے کہ اسراء و معراج کے واقعات ابوطالب اور خدیجہ ؓ کی وفات کے بعد ہوئے ہیں، کیونکہ اس دوران میں مشرکین کی ایذا بہت بڑھ گئی تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو یہ انعام ان کی طرف سے پیش آنے والی ایذا سے تسلی دینے کے لیے اور آپ کی عزت افزائی اور تکریم کے لیے عطا فرمایا۔ اشرف الحواشی میں ہے کہ اکثر روایات کے مطابق یہ قصہ ہجرت سے ایک سال قبل کا ہے۔ امام ابن حزم ؓ نے اس پر اجماع نقل کیا ہے اور ملا امین عمری نے اسے قطعی قرار دیا ہے۔ بعض روایات میں تین سال قبل بھی مذکور ہے۔ علامہ شنقیطی ؓ فرماتے ہیں کہ صحیحین میں ”شریک عن انس“ کی سند سے جو مذکور ہے کہ اسراء مذکور خواب میں واقع ہوا، وہ کتاب و سنت کی صریح نصوص اور اہل السنۃ والجماعہ کے عقیدے (کہ اسراء و معراج بیداری میں جسمانی ہوئی) کے خلاف نہیں، کیونکہ یہ عین ممکن ہے کہ پہلے یہ سب کچھ آپ کو خواب میں دکھایا گیا ہو اور پھر اس کی تصدیق بیداری میں دکھا کر کی گئی ہو، جیسا کہ آپ ﷺ نے خواب میں دیکھا : (لَتَدْخُلُنَّ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ اِنْ شَاۗءَ اللّٰهُ اٰمِنِيْنَ ۙ مُحَلِّقِيْنَ رُءُوْسَكُمْ وَمُقَصِّرِيْنَ) [ الفتح : 27 ] ”تم مسجد حرام میں ضرور بصرور داخل ہوگے، اگر اللہ نے چاہا، امن کی حالت میں، اپنے سر منڈاتے ہوئے اور کتراتے ہوئے۔“ پھر بیداری میں اس کی تصدیق بالفعل بھی فرما دی گئی۔ اس کی تصدیق عائشہ ؓ کی حدیث سے بھی ہوتی ہے کہ آپ جو کچھ خواب میں دیکھتے وہ صبح کے طلوع ہونے کی طرح دن کو سامنے آجاتا۔ علاوہ ازیں انس ؓ سے شریک کے علاوہ بہت سے حفاظ نے یہ روایت بیان کی ہے، لیکن کسی نے بھی شریک کے خواب میں دیکھنے والے الفاظ بیان نہیں کیے۔ اہل علم کی ایک جماعت نے فرمایا کہ شریک بن عبداللہ بن ابی نمر نے انس ؓ سے یہ روایت صحیح یاد نہیں رکھی۔ امام مسلم نے فرمایا کہ شریک نے یہ حدیث ثابت بنانی (انس ؓ کے شاگرد) کی طرح بیان کی اور اس میں کچھ چیزیں آگے پیچھے کردیں اور کچھ کم زیادہ کردیں۔ دوسرے تمام حفاظ کی روایت صحیح ہے اور اس میں شریک والے الفاظ نہیں ہیں۔ 3 بعض لوگ معراج کی رات میں لیلۃ القدر کی طرح خصوصی قیام اور تلاوت و ذکر کا اہتمام کرتے ہیں، اگر اس کی کوئی حقیقت ہوتی تو کم از کم کسی صحیح سند کے ساتھ اس مہینے اور دن کی تعیین ضرور معلوم ہوتی، جس میں یہ واقعہ ہوا اور صحابہ بھی اس رات اس کا اہتمام کرتے، جبکہ ستائیس (27) رجب کی کوئی صحیح روایت موجود نہیں اور نہ نبی کریم ﷺ یا صحابہ سے اس رات کی خاص عبادت کا کہیں ذکر ہے، رہی آتش بازی اور چراغاں تو وہ آتش پرستوں کے ساتھ مشابہت ہے جس سے پرہیز لازم ہے۔ 3 اس موقع پر رسول اللہ ﷺ نے اللہ تعالیٰ کی زیارت کی ہے یا نہیں، یہ بحث سورة نجم (9) (فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ اَوْ اَدْنٰى) میں آئے گی اور معراج کے واقعہ کا بقدر ضرورت ذکر بھی وہیں ہوگا۔ (ان شاء اللہ) الَّذِيْ بٰرَكْنَا حَوْلَهٗ : یعنی وہاں ظاہری اور مادی برکات بھی ہیں کہ وہاں چشموں، نہروں اور ہر قسم کے غلے اور پھلوں کی بہتات ہے اور معنوی و باطنی اعتبار سے بھی وہ خطہ بابرکت ہے کہ بیت المقدس میں چاروں مقدس کتابیں پڑھی گئیں، بہت سے انبیاء و رسل وہاں مبعوث ہوئے، وہاں دنیا میں کعبۃ اللہ کے بعد بنائی جانے والی دوسری مسجد ہے، جو ان تین مساجد میں شامل ہے جن کے علاوہ کسی جگہ ثواب کی نیت سے کجاوے کس کر جانا منع ہے۔ قرآن مجید میں کئی جگہ یہ اصطلاح بیت المقدس اور شام کے لیے آئی ہے، جیسا کہ فرمایا : (وَنَجَّيْنٰهُ وَلُوْطًا اِلَى الْاَرْضِ الَّتِيْ بٰرَكْنَا فِيْهَا لِلْعٰلَمِيْن) [ الأنبیاء : 71] ”اور ہم نے اسے اور لوط کو اس سرزمین کی طرف نجات دی جس میں ہم نے جہانوں کے لیے برکت رکھی۔“ اور فرمایا : (وَلِسُلَيْمٰنَ الرِّيْحَ عَاصِفَةً تَجْرِيْ بِاَمْرِهٖٓ اِلَى الْاَرْضِ الَّتِيْ بٰرَكْنَا فِيْهَا) [ الأنبیاء : 81 ] ”اور سلیمان کے لیے ہوا (مسخر کردی) جو تیز چلنے والی تھی، اس کے حکم سے اس زمین کی طرف چلی تھی جس میں ہم نے برکت رکھی۔“ ان تمام آیات سے مراد سرزمین شام ہے۔ لِنُرِيَهٗ مِنْ اٰيٰتِنَا : اسراء میں پیش آنے والی نشانیاں، مثلاً آپ کے مکان کی چھت کا کھولا جانا، جبریل ؑ کا آپ کا سینہ مبارک چاک کرکے دل کو زم زم سے دھو کر ایمان و حکمت سے بھر کر پھر ملا دینا، براق کی سواری جس کا قدم حد نگاہ پر پڑتا تھا، مہینوں کا سفر لمحوں میں طے ہونا، بیت المقدس میں دودھ اور شراب کا پیش کیا جانا اور آپ کا دودھ کو پسند فرمانا، انبیاء ؑ کی ملاقات اور امامت وغیرہ، پھر سفر معراج کی بیشمار نشانیاں ان کے علاوہ ہیں جن کے متعلق فرمایا : (لَقَدْ رَاٰى مِنْ اٰيٰتِ رَبِّهِ الْكُبْرٰى) [ النجم : 18 ] ”بلاشبہ یقیناً اس نے اپنے رب کی بعض بہت بڑی نشانیاں دیکھیں۔“ اِنَّهٗ هُوَ السَّمِيْعُ الْبَصِيْرُ : اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے پہلے ”سُبْحٰنَ الَّذِيْٓ اَسْرٰى“ میں اپنا ذکر غائب کے صیغے کے ساتھ فرمایا، پھر ”بٰرَكْنَا حَوْلَهٗ“ اور ”لِنُرِيَهٗ مِنْ اٰيٰتِنَا“ میں تین مرتبہ جمع متکلم برائے تعظیم کے ساتھ، پھر اس آیت کے آخر میں ”ۭ اِنَّهٗ هُوَ“ غائب کے ساتھ اور اس سے اگلی آیت میں پھر جمع متکلم کے ساتھ فرمایا ہے، پھر بھی سمجھنے میں کسی جگہ کوئی الجھن پیش نہیں آئی بلکہ لطف محسوس ہوتا ہے۔ کلام کا یہ اسلوب بلاغت کا کمال ہے، اسے عربی میں التفات کہتے ہیں۔ مقصد یہ ہے کہ واقعۂ اسراء سن کر اہل ایمان کے اسے تسلیم کرنے کو اور کفار کے اس سے انکار کو اور دونوں نے اس پر جو کچھ کہا اور کیا یقیناً وہ صرف وہی (اللہ) ہے جو سب کچھ سننے والا اور دیکھنے والا اور اس کے مطابق ہر ایک سے معاملہ کرنے والا اور جزا و سزا دینے والا ہے۔
Top