Al-Quran-al-Kareem - Al-Israa : 19
وَ مَنْ اَرَادَ الْاٰخِرَةَ وَ سَعٰى لَهَا سَعْیَهَا وَ هُوَ مُؤْمِنٌ فَاُولٰٓئِكَ كَانَ سَعْیُهُمْ مَّشْكُوْرًا
وَمَنْ : اور جو اَرَادَ : چاہے الْاٰخِرَةَ : آخرت وَسَعٰى : اور کوشش کی اس نے لَهَا : اس کے لیے سَعْيَهَا : اس کی سی کوشش وَهُوَ : اور (بشرطیکہ) وہ مُؤْمِنٌ : مومن فَاُولٰٓئِكَ : پس یہی لوگ كَانَ : ہے۔ ہوئی سَعْيُهُمْ : ان کی کوشش مَّشْكُوْرًا : قدر کی ہوئی (مقبول)
اور جس نے آخرت کا ارادہ کیا اور اس کے لیے کوشش کی، جو اس کے لائق کوشش ہے، جبکہ وہ مومن ہو تو یہی لوگ ہیں جن کی کوشش ہمیشہ سے قدر کی ہوئی ہے۔
وَمَنْ اَرَادَ الْاٰخِرَةَ۔۔ : اس آیت میں عمل کی قبولیت کی تین شرطیں بیان ہوئی ہیں، جن میں بنیادی شرط ”وَهُوَ مُؤْمِنٌ“ یعنی ایمان ہے، یہ بات بہت سی آیات میں بیان ہوئی ہے۔ دیکھیے سورة نساء (124) ، نحل (97) اور مومن (40) وغیرہ۔ کافر کے نیک اعمال قیامت کے دن بےکار ہوں گے۔ دیکھیے سورة ابراہیم (18) ، فرقان (23) اور نور (39) وغیرہ۔ کیونکہ کافر کی نیکیوں کا بدلہ دنیا ہی میں اسے دے دیا جاتا ہے۔ دیکھیے ہود (15، 16) ، شوریٰ (20) احقاف (20) وغیرہ۔ کافر کی نیکیوں کی مثال صدقہ، صلہ رحمی، مہمان نوازی اور مظلوموں کی مدد وغیرہ ہے۔ دوسری شرط اخلاص ہے، جو ”اَرَادَ الْاٰخِرَةَ“ سے ظاہر ہے اور تیسری شرط آخرت کے لائق عمل صالح ہے، جو ”وَسَعٰى لَهَا سَعْيَهَا“ سے ظاہر ہو رہی ہے اور یہ وہ عمل ہے جو کتاب و سنت کے مطابق ہو، ایسے عمل کا بدلہ ضرور ملے گا اور کئی گنا یا بےحساب ملے گا، جیسا کہ کئی آیات میں مذکور ہے : (اِنَّمَا يُوَفَّى الصّٰبِرُوْنَ اَجْرَهُمْ بِغَيْرِ حِسَابٍ) [ الزمر : 10 ] ”صرف کامل صبر کرنے والوں ہی کو ان کا اجر کسی شمار کے بغیر دیا جائے گا۔“ تو جس سعی کو اللہ تعالیٰ مشکور قرار دے وہ ایسی ہی ہوتی ہے۔
Top