Al-Quran-al-Kareem - Al-Israa : 2
وَ اٰتَیْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ وَ جَعَلْنٰهُ هُدًى لِّبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اَلَّا تَتَّخِذُوْا مِنْ دُوْنِیْ وَكِیْلًاؕ
وَ : اور اٰتَيْنَا : ہم نے دی مُوْسَي : موسیٰ الْكِتٰبَ : کتاب وَجَعَلْنٰهُ : اور ہم نے بنایا اسے هُدًى : ہدایت لِّبَنِيْٓ اِسْرَآءِيْلَ : بنی اسرائیل اَلَّا تَتَّخِذُوْا : کہ نہ ٹھہراؤ تم مِنْ دُوْنِيْ : میرے سوا ‎وَكِيْلًا : کارساز
اور ہم نے موسیٰ کو کتاب دی اور اسے بنی اسرائیل کے لیے ہدایت بنایا کہ تم میرے سوا کوئی کارساز نہ پکڑو۔
وَاٰتَيْنَا مُوْسَي الْكِتٰبَ : یعنی جس طرح نبی کریم ﷺ کو اسراء کا شرف عطا فرمایا، اسی طرح ہم نے موسیٰ ؑ کو ”الْكِتٰبَ“ (تورات) سے نوازا۔ قرآن مجید میں عموماً نبی کریم ﷺ کے ذکر کے ساتھ موسیٰ ؑ اور بنی اسرائیل کا ذکر ہوتا ہے، تاکہ رسول اللہ ﷺ کو دعوت میں پیش آنے والی مشکلات کی مثال پیش نظر رہے اور آپ کی امت کو رسول کی اطاعت اور اس کی نافرمانی کے نتائج پیش نظر رہیں۔ وَجَعَلْنٰهُ هُدًى لِّبَنِيْٓ : اور ہم نے اسے بنی اسرائیل کے لیے ہدایت بنایا، یعنی تورات کو یا موسیٰ ؑ کو۔ یہ آیت سورة سجدہ کی آیت (23) کے مشابہ ہے۔ اَلَّا تَتَّخِذُوْا مِنْ دُوْنِيْ ‎وَكِيْلًا : ”اَلَّا تَتَّخِذُوْا“ اصل میں ”أَنْ لَا تَتَّخِذُوْا“ ہے۔ یہاں ”أَنْ“ کو مصدریہ مان کر اس سے پہلے لام محذوف مانیں گے، یعنی ”لِءَلَّا تَتَّخِذُوْا“ (تاکہ تم۔۔) یا ”أَنْ“ بمعنی ”أَیْ“ (تفسیر یہ) ہے، یعنی ہم نے موسیٰ کو کتاب دی جس کا خلاصہ اور مطلب یہ ہے کہ۔۔ ”وَكِيْلًا“ ”وَکَلَ یَکِلُ“ (سپرد کرنا) سے ”فَعِیْلٌ“ بمعنی مفعول ہے، جس کے سپرد اپنا کام کیا جائے، یعنی میرے سوا کسی کو اپنا کارساز نہ سمجھو، نہ اپنے کام کسی اور کے سپرد کرو۔
Top