Al-Quran-al-Kareem - Al-Israa : 37
وَ لَا تَمْشِ فِی الْاَرْضِ مَرَحًا١ۚ اِنَّكَ لَنْ تَخْرِقَ الْاَرْضَ وَ لَنْ تَبْلُغَ الْجِبَالَ طُوْلًا
وَلَا تَمْشِ : اور نہ چل فِي الْاَرْضِ : زمین میں مَرَحًا : اکڑ کر (اتراتا ہوا) اِنَّكَ : بیشک تو لَنْ تَخْرِقَ : ہرگز نہ چیر ڈالے گا الْاَرْضَ : زمین وَلَنْ تَبْلُغَ : اور ہرگز نہ پہنچے گا الْجِبَالَ : پہاڑ طُوْلًا : بلندی
اور زمین میں اکڑ کر نہ چل، بیشک تو نہ کبھی زمین کو پھاڑے گا اور نہ کبھی لمبائی میں پہاڑوں تک پہنچے گا۔
وَلَا تَمْشِ فِي الْاَرْضِ مَرَحًا : ”مَرَحًا“ اصل میں حد سے بڑھی ہوئی خوشی کو کہتے ہیں، جس کے ساتھ تکبر اور لوگوں سے اونچا ہونے کا اظہار ہو۔ ”فِي الْاَرْضِ“ سے اس بات کی طرف توجہ دلانا مقصود ہے کہ تو اسی زمین سے پیدا ہوا اور اسی کی آغوش میں سمٹ جائے گا۔ (دیکھیے طٰہٰ : 5۔ مرسلات : 25 تا 27) پھر اس پر یہ تکبر کیسا ؟ اسلام کے سکھائے ہوئے ادب کے مطابق اپنی چال میں تواضع اور میانہ روی اختیار کر۔ دیکھیے سورة لقمان (18، 19) اور فرقان (63)۔ اِنَّكَ لَنْ تَخْرِقَ الْاَرْضَ۔۔ : اس میں انسان کو مذاق کے انداز میں اس کی حیثیت یاد دلائی گئی ہے۔ نبی ﷺ نے تکبر کا برا انجام بہت سی احادیث میں بیان فرمایا ہے۔ عبداللہ بن مسعود ؓ راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (لاَ یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ مَنْ کَانَ فِيْ قَلْبِہِ مِثْقَالُ ذَرَّۃٍ مِنْ کِبْرٍ ، قَالَ رَجُلٌ إِنَّ الرَّجُلَ یُحِبُّ أَنْ یَّکُوْنَ ثَوْبُہُ حَسَنًا، وَنَعْلُہُ حَسَنَۃً ، قَالَ إِنَّ اللّٰہَ جَمِیْلٌ یُحِبُّ الْجَمَالَ ، الْکِبْرُ بَطَرُ الْحَقِّ وَغَمْطُ النَّاسِ) [ مسلم، الإیمان، باب تحریم الکبر وبیانہ : 91 ] ”وہ شخص جنت میں داخل نہیں ہوگا جس کے دل میں رائی کے دانہ کے برابر کبر ہوگا۔“ ایک آدمی نے کہا : ”آدمی پسند کرتا ہے کہ اس کا کپڑا خوبصورت ہو اور اس کا جوتا خوبصورت ہو ؟“ آپ ﷺ نے فرمایا : ”بیشک اللہ جمیل ہے اور جمال کو پسند فرماتا ہے، کبر تو حق کا انکار اور لوگوں کو حقیر جاننا ہے۔“ اور ابوہریرہ ؓ راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (مَنْ جَرَّ ثَوْبَہُ خُیَلاَءَ لَمْ یَنْظُرِ اللّٰہُ إِلَیْہِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ) [ بخاری، اللباس، باب من جر إزارہ۔۔ : 5784۔ مسلم : 2085 ] ”اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس شخص کو نہیں دیکھے گا جو اپنی چادر تکبر سے کھینچے۔“ افسوس کہ مسلمان مردوں نے کفار کی تقلید میں اپنی شلواریں، پتلونیں ٹخنوں سے نیچے رکھنے کو عادت بنا لیا ہے اور عذر یہ کرتے ہیں کہ ہم تکبر سے ایسا نہیں کرتے، حالانکہ اگر بےدھیانی میں بےاختیار کپڑا لٹک جائے تو کہا جاسکتا ہے کہ ہم نے تکبر سے ایسا نہیں کیا، لیکن جان بوجھ کر لمبی شلوار سلوانا اور اسے جان بوجھ کر ٹخنوں سے نیچے رکھنا صاف رسول اللہ ﷺ کی نافرمانی اور واضح تکبر ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے از خود چادر لٹکانے ہی کو تکبر میں شمار کیا ہے، چناچہ جابر بن سلیم ؓ سے ایک لمبی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (وَارْفَعْ إِزَارَکَ إِلٰی نِصْفِ السَّاقِ فَإِنْ أَبَیْتَ فَإِلَی الْکَعْبَیْنِ وَإِِیَّاکَ وَإِسْبَالَ الْإِزَارِ فَإِِنَّھَا مِنَ الْمَخِیْلَۃِ وَإِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ الْمَخِیْلَۃَ) [ أبوداوٗد، اللباس، باب ما جاء في إسبال الإزار : 4084 ] ”اور اپنی چادر نصف پنڈلی تک اٹھاؤ، پھر اگر تم نہیں مانتے تو ٹخنوں تک اور (ٹخنوں سے نیچے) چادر لٹکانے سے بچو، کیونکہ یقیناً یہ تکبر سے ہے اور بلاشبہ اللہ تعالیٰ تکبر کو پسند نہیں کرتا۔“ شیخ البانی ؓ نے اسے صحیح کہا ہے۔ بےدین لوگوں کا تو کہنا ہی کیا ہے، آج کل بہت سے لوگ بلکہ کئی جماعتیں جو پاکستان میں، بلکہ دنیا بھر میں اقامت دین کا علم اٹھائے ہوئے ہیں، ان کے مرد دھڑلے سے کپڑا ٹخنے سے نیچے رکھتے ہیں، بلکہ کپڑا اٹھانے والوں کو طنز و مزاح کا نشانہ بناتے ہیں، اس کے برعکس مسلم عورتوں کی اکثریت جنھیں اپنے پاؤں تک چھپانے تھے وہ کپڑا اٹھا کر اپنے حسن کی نمائش کرکے اللہ تعالیٰ کی لعنت کا نشانہ بن رہی ہے۔
Top