Al-Quran-al-Kareem - Al-Israa : 83
وَ اِذَاۤ اَنْعَمْنَا عَلَى الْاِنْسَانِ اَعْرَضَ وَ نَاٰ بِجَانِبِهٖ١ۚ وَ اِذَا مَسَّهُ الشَّرُّ كَانَ یَئُوْسًا
وَاِذَآ : اور جب اَنْعَمْنَا : ہم نعمت بخشتے ہیں عَلَي : پر۔ کو الْاِنْسَانِ : انسان اَعْرَضَ : وہ روگردان ہوجاتا ہے وَنَاٰ بِجَانِبِهٖ : اور پہلو پھیر لیتا ہے وَاِذَا : اور جب مَسَّهُ : اسے پہنچتی ہے الشَّرُّ : برائی كَانَ : وہ ہوجاتا ہے يَئُوْسًا : مایوس
اور جب ہم انسان پر انعام کرتے ہیں وہ منہ پھیر لیتا ہے اور اپنا پہلو دور کرلیتا ہے اور جب اسے تکلیف پہنچتی ہے تو بہت ناامید ہوجاتا ہے۔
؀ وَاِذَآ اَنْعَمْنَا عَلَي الْاِنْسَانِ۔۔ :”الْاِنْسَانِ“ سے مراد یہاں کافر یا فاسق انسان ہے، صحیح مومن ایسا نہیں ہوتا۔ صہیب ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (عَجَبًا لِأَمْرِ الْمُؤْمِنِ ، إِنَّ أَمْرَہُ کُلَّہُ لَہُ خَیْرٌ، وَلَیْسَ ذٰلِکَ لِأَحَدٍ إِلَّا لِلْمُؤْمِنِ ، إِنْ أَصَابَتْہُ سَرَّاءُ شَکَرَ ، فَکَانَ خَیْرًا لَّہُ ، وَإِنْ أَصَابَتْہُ ضَرَّاءُ صَبَرَ ، فَکَانَ خَیْرًا لَّہُ) [ مسلم، الزھد، باب المؤمن أمرہ کلہ خیر : 2999 ] ”مومن کا معاملہ بڑا عجیب ہے، کیونکہ اس کا ہر معاملہ ہی خیر ہے اور یہ چیز مومن کے سو اکسی کو حاصل نہیں، اگر اسے کوئی خوشی پہنچے تو وہ شکر کرتا ہے تو وہ اس کے لیے خیر ہے اور اگر اسے کوئی تکلیف پہنچے تو صبر کرتا ہے، سو وہ بھی اس کے لیے خیر ہے۔“ مزید دلیل کے لیے ملاحظہ فرمائیں سورة ہود (9 تا 11) اور سورة معارج (19 تا 35) اس آیت سے معلوم ہوا کہ کوئی شخص اگر احسان کے باوجود بےوفائی اور ناشکری کرے تو محسن کو احسان چھوڑنا نہیں چاہیے۔ تمام کفار و فساق کی ناشکری کے باوجود اللہ تعالیٰ دنیا میں ان پر بھی بیشمار انعامات جاری رکھے ہوئے ہے۔
Top