Al-Quran-al-Kareem - Al-Israa : 8
عَسٰى رَبُّكُمْ اَنْ یَّرْحَمَكُمْ١ۚ وَ اِنْ عُدْتُّمْ عُدْنَا١ۘ وَ جَعَلْنَا جَهَنَّمَ لِلْكٰفِرِیْنَ حَصِیْرًا
عَسٰي : امید ہے رَبُّكُمْ : تمہارا رب اَنْ : کہ يَّرْحَمَكُمْ : وہ تم پر رحم کرے وَاِنْ : اور اگر عُدْتُّمْ : تم پھر (وہی) کرو گے عُدْنَا : ہم وہی کرینگے وَجَعَلْنَا : اور ہم نے بنایا جَهَنَّمَ : جہنم لِلْكٰفِرِيْنَ : کافروں کے لیے حَصِيْرًا : قید خانہ
تمہارا رب قریب ہے کہ تم پر رحم کرے اور اگر تم دوبارہ کرو گے تو ہم (بھی) دوبارہ کریں گے اور ہم نے جہنم کو کافروں کے لیے قید خانہ بنایا ہے۔
عَسٰي رَبُّكُمْ اَنْ يَّرْحَمَكُمْ : یہ اللہ کی رحمت کا بیان ہے کہ اتنی سرکشی اور سزا کے بعد بھی اگر تم واپس پلٹ آؤ اور حد سے بڑھی ہوئی اس دوسری سرکشی اور اس کی وجہ سے ناقابل بیان تباہی سے دو چار ہونے کے بعد بھی تورات و انجیل میں مذکور نبی محمد ﷺ کی پیروی اختیار کرو تو پوری امید ہے کہ تمہارا رب تم پر رحم فرمائے گا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورة اعراف کی آیات (156، 157) میں فرمایا کہ میری رحمت نے ہر چیز کو گھیر رکھا ہے، سو میں اسے ان لوگوں کے لیے ضرور لکھ دوں گا جو اس رسول کی پیروی کریں گے جو امی نبی ہے، جسے وہ اپنے پاس تورات اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں۔ چناچہ اس بشارت کے مطابق جو اسرائیلی، مثلاً عبداللہ بن سلام ؓ وغیرہ رسول اللہ ﷺ پر ایمان لائے وہ رحمت الٰہی کے حق دار بن گئے۔ وَاِنْ عُدْتُّمْ عُدْنَا : یعنی اگر تم پھر دوبارہ حد سے بڑھے اور فساد کبیر کے مرتکب ہوئے تو ہم دوبارہ تمہارے ساتھ وہی پہلے جیسا سلوک کریں گے۔ چناچہ رسول اللہ ﷺ مدینہ منورہ میں تشریف لائے تو آپ نے یہود مدینہ کے ساتھ صلح کے ساتھ رہنے کا اور متحد ہو کر حملہ آور دشمن کا مقابلہ کرنے کا معاہدہ کیا، مگر بنوقینقاع نے ایک مسلم خاتون کی بےحرمتی کی، پھر معاہدہ توڑ دیا، رسول اللہ ﷺ نے ان کا محاصرہ کرلیا اور آخر کار انھیں مدینہ سے جلا وطن کردیا۔ پھر رسول اللہ ﷺ ایک دفعہ کسی معاملے کے لیے بنونضیر قبیلہ میں تشریف لے گئے تو انھوں نے آپ کو چھت سے پتھر گرا کر شہید کرنے کی سازش کی، جو آپ کے علم میں آگئی، آپ نے ان کا محاصرہ کرلیا، وہ مقابلہ کی تاب نہ لاسکے اور رسول اللہ ﷺ نے انھیں ان کی کتاب تورات میں مذکور سزا دینے کا ارادہ کیا، مگر ان کے ہمدرد عبداللہ بن ابی منافق کے حد سے بڑھے ہوئے اصرار پر آپ نے ان کی جاں بخشی کرکے انھیں بھی جلاوطن کردیا۔ پھر تیسرے قبیلے بنوقریظہ نے خندق کے موقع پر جب دس ہزار کفار کے لشکر جرار نے مدینہ جیسی چھوٹی سی بستی پر یلغار کرکے محاصرہ کیا ہوا تھا، انھوں نے عین حالت جنگ میں معاہدہ توڑ کر دشمن کا ساتھ دیا، تو حملہ آوروں سے فارغ ہو کر آپ ﷺ نے بنوقریظہ کا محاصرہ کرلیا۔ وہ مقابلہ نہ کرسکے تو مسلمانوں میں سے اپنے پرانے خیر خواہ اور ہمدرد سعد بن معاذ ؓ کے فیصلے پر اپنے آپ کو مسلمانوں کے حوالے کردیا، اگر وہ نبی ﷺ کے فیصلے پر حوالے ہوتے تو شاید آپ ﷺ ان سے پہلے قبیلوں کی طرح رعایت فرماتے، مگر جب انھوں نے سعد بن معاذ ؓ کو حکم مانا، اس امید پر کہ وہ عبداللہ بن ابی منافق کی طرح ہماری پرانی دوستی کا خیال رکھیں گے تو سعد ؓ نے فرمایا : ”اب وقت آگیا ہے کہ سعد کو اللہ کا حکم نافذ کرنے کے راستے میں کوئی دوستی حائل نہ ہو۔“ چناچہ انھوں نے وہ فیصلہ کیا جو تورات میں مذکور تھا اور جسے رسول اللہ ﷺ نے بھی اللہ کا فیصلہ قرار دیا۔ چناچہ ان کے تمام بالغ مرد جو سات سو تھے، قتل کردیے گئے اور ان کی عورتوں اور بچوں کو لونڈی و غلام بنا لیا گیا۔[ دیکھیے بخاری، المغازی، باب مرجع النبي ﷺ من الأحزاب۔۔ : 4122 ] یہ ”وَاِنْ عُدْتُّمْ عُدْنَا“ کی ایک تفسیر تھی۔ پھر خیبر والوں نے عبداللہ بن عمر ؓ کے ہاتھ پاؤں توڑ دیے تو امیر المومنین عمر بن خطاب نے تمام یہود و نصاریٰ کو پورے جزیرۂ عرب سے جلا وطن کردیا۔ پھر اللہ کے وعدے کے مطابق ان کی ہر سرکشی پر ان کی سرکوبی کرنے والا کوئی نہ کوئی فرماں روا ہمیشہ ان کا بندوبست کرتا رہا۔ (دیکھیے اعراف : 167) قریب زمانے میں ہٹلر نے انھیں عبرت ناک انجام سے دو چار کیا۔ اب تمام کفار نصاریٰ ، کمیونسٹوں اور بت پرست ہندوؤں کی پشت پناہی سے، پھر یہ لوگ فلسطین میں قدس پر قبضہ کرکے اپنی ریاست اسرائیل کے نام سے بنا کر فلسطین کے مسلمانوں پر ظلم کے پہاڑ توڑ رہے ہیں اور مسلم دشمنی کی وجہ سے تمام کفار ان کے ساتھ ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے چاہا تو اس کے وعدے کے مطابق عنقریب ان کے ساتھ دوبارہ وہی کچھ ہونے والا ہے جو پہلے ہوتا رہا ہے۔ پھر وہ وقت بھی آ کر رہے گا جب مسلمانوں کے ساتھ جنگ میں پتھر اور درخت بھی ان کے قتل کے لیے مسلمانوں کو ان کی اطلاع دیں گے، جیسا کہ اس سے پہلے صحیح مسلم کی حدیث میں گزرا ہے۔ یہ اللہ کا فیصلہ ہے جسے نافذ ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ بنی اسرائیل کی یہ ساری داستان مسلمانوں کو عبرت کے لیے سنائی گئی ہے کہ اگر تم نے ایسا کیا تو تمہارے ساتھ بھی ایسا ہی ہوگا۔ وَجَعَلْنَا جَهَنَّمَ لِلْكٰفِرِيْنَ حَصِيْرًا :”حَصِيْرًا“ یا تو ”حَصَرَ یَحْصُرُ حَصْرًا“ (ن) سے ہے، جس کا معنی قید کرنا، گھیرنا ہے، یعنی قید خانہ، یا مراد وہ حصیر (چٹائی) ہے جو بچھائی جاتی ہے، یعنی جہنم ان کا بچھونا بنے گی، جیسا کہ فرمایا : (لَهُمْ مِّنْ جَهَنَّمَ مِهَادٌ) [ الأعراف : 41 ] ”ان کے لیے جہنم کے بستر ہوں گے۔“
Top