بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Al-Quran-al-Kareem - Al-Kahf : 1
اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِیْۤ اَنْزَلَ عَلٰى عَبْدِهِ الْكِتٰبَ وَ لَمْ یَجْعَلْ لَّهٗ عِوَجًاؕٚ
اَلْحَمْدُ : تمام تعریفیں لِلّٰهِ : اللہ کیلئے الَّذِيْٓ : وہ جس نے اَنْزَلَ : نازل کی عَلٰي عَبْدِهِ : اپنے بندہ پر الْكِتٰبَ : کتاب (قرآن) وَلَمْ يَجْعَلْ : اور نہ رکھی لَّهٗ : اس میں عِوَجًا : کوئی کجی
سب تعریف اللہ کے لیے ہے جس نے اپنے بندے پر کتاب نازل کی اور اس میں کوئی کجی نہ رکھی۔
اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْٓ۔۔ : یہ سورت ان پانچ سورتوں میں شامل ہے جن کی ابتدا ”اَلْحَمْدُ“ کے ساتھ ہوئی ہے، دوسری چار سورتیں فاتحہ، انعام، سبا اور فاطر ہیں۔ پچھلی سورت کا خاتمہ بھی ”اَلْحَمْدُ“ کے ساتھ ہوا ہے۔ اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ ہر کام کی ابتدا اور انتہا اللہ کے پاکیزہ نام کے ساتھ یا اس کی حمد کے ساتھ کرنی چاہیے۔ ان تمام سورتوں میں سے ہر سورت کا طریقہ اگرچہ مختلف ہے مگر مقصود لوگوں کو اس بات کا یقین دلانا ہے کہ حمد کے لائق صرف اللہ تعالیٰ کی ذات پاک ہے، اور کوئی نہیں، کیونکہ کسی میں کوئی خوبی ہے تو اللہ تعالیٰ ہی کی عطا کردہ ہے۔ الَّذِيْٓ اَنْزَلَ عَلٰي عَبْدِهِ الْكِتٰبَ : سورة فاتحہ میں اللہ تعالیٰ کے تمام حمد کا مالک ہونے کی دلیل کے لیے چار صفات بیان ہوئی ہیں، یہاں اللہ تعالیٰ کے تمام حمد اور خوبیوں کا مالک ہونے کی ایک ہی دلیل بیان کی گئی ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کا اپنے بندے پر ”اَلْکِتٰب“ نازل فرمانا ہے۔ کیونکہ دوسرے تمام انعامات اگرچہ ایک دوسرے سے بڑھ کر ہیں مگر یہ نعمت سب سے اہم ہے، کیونکہ اس پر ہمیشہ کی زندگی یعنی اخروی کامیابی یا ناکامی کا دارومدار ہے۔ عَلٰي عَبْدِهِ : ”اپنے بندے پر، اپنے غلام پر“ اس میں رسول اللہ ﷺ کو اپنا خاص عبد قرار دینے میں آپ ﷺ کی بےانتہا شان بیان ہوئی ہے، اگرچہ زمین و آسمان میں رہنے والی ہر چیز اللہ تعالیٰ کی غلام ہے، مگر ”اپنا غلام“ کہنے میں آپ ﷺ کو جو عزت ملی وہ بہت کم لوگوں کو ملی ہے، جیسا کہ (سُبْحٰنَ الَّذِيْٓ اَسْرٰى بِعَبْدِهٖ) [ بنی إسرائیل : 1 ] میں ہے اور اس کتاب کی بھی تعریف ہے جو نازل کی گئی۔ ”اَلْکِتٰبُ“ میں الف لام عہد کا ہے، یعنی یہ کتاب، مراد قرآن کریم ہے، کیونکہ جب صرف ”اَلْکِتٰب“ کہا جائے تو قرآن کریم ہی مراد ہوتا ہے، اس لیے کہ اس کے سوا کسی اور میں یہ کمال ہی نہیں کہ اسے ”اَلْکِتٰب“ کہا جاسکے۔ وَلَمْ يَجْعَلْ لَّهٗ عِوَجًا : ”عِوَجًا“ کجی، ٹیڑھا پن۔ ”عِوجاً“ پر تنوین عموم کے لیے ہے جو نفی کے بعد آکر مزید عام ہوگیا ہے، یعنی اس کتاب میں کسی بھی قسم کا کوئی ٹیڑھا پن نہیں، نہ الفاظ میں، نہ معانی میں، نہ فصاحت و بلاغت میں، نہ یہ کہ اس کی آیات کا آپس میں کوئی اختلاف ہو، یا اس کی کوئی خبر غلط نکلے، یا کوئی حکم حکمت سے خالی ہو۔ دیکھیے زمر (28) ، بنی اسرائیل (9 تا 10) اور نساء (82)۔
Top