Al-Quran-al-Kareem - Maryam : 16
وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ مَرْیَمَ١ۘ اِذِ انْتَبَذَتْ مِنْ اَهْلِهَا مَكَانًا شَرْقِیًّاۙ
وَاذْكُرْ : اور ذکر کرو فِى الْكِتٰبِ : کتاب میں مَرْيَمَ : مریم اِذِ انْتَبَذَتْ : جب وہ یکسو ہوگئی مِنْ اَهْلِهَا : اپنے گھروالوں سے مَكَانًا : مکان شَرْقِيًّا : مشرقی
اور کتاب میں مریم کا ذکر کر، جب وہ اپنے گھروالوں سے ایک جگہ میں الگ ہوئی جو مشرق کی جانب تھی۔
وَاذْكُرْ فِى الْكِتٰبِ مَرْيَمَ : زکریا اور مریم ؑ کے واقعات میں مناسبت کی وجہ سے ان کا ذکر سورة آل عمران (35 تا 40) ، سورة انبیاء (39 تا 41) اور یہاں اکٹھا آیا ہے، کیونکہ ان میں کئی طرح سے مناسبت ہے۔ مریم [ کی کرامت بےموسم پھل دیکھ کر زکریا ؑ کے دل میں بےوقت اولاد کی خواہش اور امید پیدا ہوئی۔ پھر زکریا ؑ کو خلاف عادت بیٹا عطا ہوا اور مریم [ کے ہاں ان سے بھی بڑھ کر خلاف عادت بیٹا پیدا ہوا۔ دونوں قصے اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ کی دلیل ہیں۔ اِذِ انْتَبَذَتْ مِنْ اَهْلِهَا مَكَانًا شَرْقِيًّا : ”نَبَذَ“ کا معنی پھینکنا ہے۔ ”انْتَبَذَتْ“ الگ ہوئی، یعنی بالکل الگ ہوگئی، گویا اس نے اپنے آپ کو گھر والوں سے دور پھینک دیا۔ یاد رہے کہ مریم [ کو ان کی والدہ نے بیت المقدس کی خدمت کے لیے وقف کیا تھا اور وہ اپنے بہنوئی زکریا ؑ کی کفالت میں وہاں مصروف عبادت رہتی تھیں۔ حدیث معراج میں رسول اللہ ﷺ نے یحییٰ اور عیسیٰ ؑ کو خالہ زاد بھائی فرمایا۔ مریم [ کی نیکی، پاکیزگی اور شرافت ضرب المثل تھی۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (کَمُلَ مِنَ الرِّجَالِ کَثِیْرٌ وَلَمْ یَکْمُلْ مِنَ النِّسَاءِ إِلَّا آسِیَۃُ امْرَأَۃُ فِرْعَوْنَ وَمَرْیَمُ بِنْتُ عِمْرَانَ وَ إِنَّ فَضْلَ عَاءِشَۃَ عَلَی النِّسَاءِ کَفَضْلِ الثَّرِیْدِ عَلٰی سَاءِرِ الطَّعَامِ) [ بخاري، أحادیث الأنبیاء، باب قولہ تعالیٰ : (وضرب اللّٰہ مثلا۔۔) : 3411۔ مسلم : 2431 ] ”مردوں میں بہت سے کامل ہوئے ہیں اور عورتوں میں سے کامل نہیں ہوئیں مگر فرعون کی بیوی آسیہ اور مریم بنت عمران اور عائشہ کی فضیلت عورتوں پر اس طرح ہے جیسے ثرید (گوشت کے سالن میں بھگوئی ہوئی روٹی) کی فضیلت تمام کھانوں پر۔“ علیحدہ ہونے کا مطلب بعض مفسرین نے بیان کیا ہے کہ ایام آنے کی وجہ سے الگ ہوئیں اور بعض نے فرمایا کہ عبادت کے لیے مکمل تنہائی کی خاطر الگ ہوئیں، بظاہر ان دونوں میں سے کوئی ایک وجہ ہوسکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے وجہ بیان نہیں فرمائی۔ اصل حقیقت وہی بہتر جانتا ہے۔ ابن عباس ؓ نے فرمایا کہ نصاریٰ نے مشرق کو اسی لیے قبلہ بنا لیا کہ مریم [ کے ہاں مسیح ؑ کی پیدائش بیت المقدس کی مشرقی جانب میں ہوئی۔ [ طبري و صححہ ابن بشیر : 23757 ]
Top