Al-Quran-al-Kareem - Maryam : 21
قَالَ كَذٰلِكِ١ۚ قَالَ رَبُّكِ هُوَ عَلَیَّ هَیِّنٌ١ۚ وَ لِنَجْعَلَهٗۤ اٰیَةً لِّلنَّاسِ وَ رَحْمَةً مِّنَّا١ۚ وَ كَانَ اَمْرًا مَّقْضِیًّا
قَالَ : اس نے کہا كَذٰلِكِ : یونہی قَالَ : فرمایا رَبُّكِ : تیرا رب هُوَ : وہ یہ عَلَيَّ : مجھ پر هَيِّنٌ : آسان وَلِنَجْعَلَهٗٓ : اور تاکہ ہم اسے بنائیں اٰيَةً : ایک نشانی لِّلنَّاسِ : لوگوں کے لیے وَرَحْمَةً : اور رحمت مِّنَّا : اپنی طرف سے وَكَانَ : اور ہے اَمْرًا : ایک امر مَّقْضِيًّا : طے شدہ
اس نے کہا ایسے ہی ہے، تیرے رب نے کہا ہے یہ میرے لیے آسان ہے اور تاکہ ہم اسے لوگوں کے لیے ایک نشانی اور اپنی طرف سے ایک رحمت بنائیں اور یہ شروع سے ایک طے کیا ہوا کام ہے۔
قَالَ كَذٰلِكِ : جبریل ؑ نے کہا، ایسے ہی ہوگا کہ نکاح یا زنا کے بغیر ہی تمہیں بیٹا عطا ہوگا۔ قَالَ رَبُّكِ هُوَ عَلَيَّ هَيِّنٌ : مزید کہا کہ تیرے رب نے فرمایا ہے کہ کسی مرد کے بغیر تجھے بیٹا دینا میرے لیے بالکل آسان ہے۔ وَلِنَجْعَلَهٗٓ۔۔ : واؤ کے بعد یہاں الفاظ محذوف ہیں، یعنی اور (ہم نے اس طرح کیا) تاکہ ہم اسے اپنی قدرت کی بہت بڑی نشانی اور معجزہ بنائیں کہ ہم صرف عورت سے بھی انسان پیدا کرسکتے ہیں، جیسا کہ اس سے پہلے تین نشانیاں موجود ہیں کہ ماں باپ کے بغیر انسان (آدم ؑ ، ماں کے بغیر انسان (حوا [) اور ماں باپ دونوں کے ساتھ انسان۔ تینوں ہماری قدرت کاملہ کا اظہار ہیں، اب اس سے ہماری قدرت کی چوتھی نشانی بھی پوری ہوگئی۔ چاروں میں سے کوئی بھی اللہ کے سوا کسی کے بس میں نہیں۔ دوسری جگہ فرمایا، انسان تو دور، ایک مکھی پیدا کرنا بھی کسی کے بس میں نہیں۔ دیکھیے سورة حج (73) اس لحاظ سے ساری مخلوق اللہ تعالیٰ کی قدرت اور وحدانیت کی دلیل ہے ؂ وَ فِيْ کُلِّ شَيْءٍ لَہُ آیَۃٌ تَدُلُّ عَلٰی أَنَّہُ وَاحِدٌ شرک کے بیماروں کو دیکھیے، وہ مسیح ؑ کا خالق جبریل ؑ کو قرار دے رہے ہیں۔ [ فَالْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِيْ عَافَانَا مِنْ بَلِیَّۃِ الْإِشْرَاکِ بِہِ وَمَا کُنَّا لِنَھْتَدِيَ لَوْ لَا أَنْ ھَدَانَا اللّٰہُ ] وَرَحْمَةً مِّنَّا : اور اسے اپنی طرف سے عظیم رحمت بنائیں بنی اسرائیل کے لیے اور قیامت تک آنے والے تمام انسانوں کے لیے بھی، کیونکہ مسیح ؑ نے محمد رسول اللہ ﷺ کی بشارت دی اور آپ پر ایمان لانے اور آپ کی پیروی کا حکم دیا، اس طرح وہ ان کے لیے جہنم سے نجات اور جنت میں داخلے کا باعث بنے۔ ”اٰیَةً“ اور ”رَحْمَةً“ میں تنوین تعظیم و تفخیم کے لیے ہے، لہٰذا ترجمہ بہت بڑی نشانی اور عظیم رحمت کیا گیا ہے۔rnۚ وَكَانَ اَمْرًا مَّقْضِيًّا : ”مَّقْضِيًّا“ ”قَضَی یَقْضِیْ“ کا اسم مفعول ہے، جو اصل میں ”مَقْضُوْیٌ“ تھا، معنی فیصلہ کیا ہوا۔ ”کَانَ“ ہمیشگی کے لیے ہے، اس لیے ترجمہ ”شروع سے طے کیا ہوا“ کیا ہے، یعنی یہ بات تقدیر میں طے ہوچکی ہے، کسی طرح ٹل نہیں سکتی۔
Top