Al-Quran-al-Kareem - Maryam : 22
فَحَمَلَتْهُ فَانْتَبَذَتْ بِهٖ مَكَانًا قَصِیًّا
فَحَمَلَتْهُ : پھر اسے حمل رہ گیا فَانْتَبَذَتْ : پس وہ چلی گئی بِهٖ : اسے لیکر مَكَانًا : ایک جگہ قَصِيًّا : دور
پس وہ اس (لڑکے) کے ساتھ حاملہ ہوگئی تو اسے لے کر ایک دور جگہ میں الگ چلی گئی۔
فَـحَمَلَتْهُ فَانْتَبَذَتْ بِهٖ مَكَانًا قَصِيًّا : ”قَصِيًّا“ ”قَصِیَ یَقْصَی قُصُوًّا“ ”رَضِیَ یَرْضَی“ کی طرح ناقص واوی ”عَلِمَ یَعْلَمُ“ سے ہے۔ ”قَصِيًّا أَيْ بَعِیْدًا“ یعنی دور۔ ”فَـحَمَلَتْهُ“ جبریل ؑ کے یہ کہنے اور ان میں روح پھونکنے کے بعد وہ حاملہ ہوگئیں۔ روح پھونکنے کی کیفیت کے لیے دیکھیے سورة انبیاء (91) اور سورة تحریم (12) حاملہ ہونے کے بعد فطری تقاضے کے مطابق حمل کی مدت پوری کرنے کے دوران لوگوں کے طعن و ملامت سے بچنے کے لیے وہ بیت المقدس سے دور ایک مقام پر منتقل ہوگئیں۔ ابن کثیر ؓ نے وہب کا قول ذکر کیا ہے کہ وہ بیت اللحم میں منتقل ہوئیں، جو بیت المقدس سے آٹھ میل دور تھا اور وہیں عیسیٰ ؑ کی ولادت ہوئی۔ ابن کثیر نے فرمایا کہ نصاریٰ اس میں کوئی شک نہیں کرتے۔ مگر وہب کا قول اسرائیلیات ہی سے ماخوذ ہے، نہ اس کے صحیح ہونے کا یقین ہوسکتا ہے اور نہ نصاریٰ کے کہنے کا۔ البتہ اکثر علماء کا کہنا یہی ہے۔ حمل کے کتنا عرصہ بعد عیسیٰ ؑ کی ولادت ہوئی ؟ بعض مفسرین نے فرمایا کہ بس حمل ہونے کی دیر تھی کہ اس کے ساتھ ہی ولادت ہوگئی۔ اگرچہ اللہ تعالیٰ کے لیے یہ کچھ مشکل نہیں مگر یہ بات کسی قابل اعتماد ذریعے سے نہیں آئی اور وحئ الٰہی کے بغیر کسی واقعہ کے متعلق سیکٹروں برس بعد اگر کوئی شخص سنی سنائی بات بیان کرے تو خواہ وہ کتنا عظیم ہو، وہ بات یقین کی ٹھنڈک نہیں پہنچا سکتی۔ اس لیے ظاہر یہی ہے کہ حمل کی عام مدت پوری ہوئی اور جمہور مفسرین کا قول بھی یہی ہے۔
Top