Al-Quran-al-Kareem - Maryam : 30
قَالَ اِنِّیْ عَبْدُ اللّٰهِ١ؕ۫ اٰتٰىنِیَ الْكِتٰبَ وَ جَعَلَنِیْ نَبِیًّاۙ
قَالَ : بچہ نے اِنِّىْ : بیشک میں عَبْدُ اللّٰهِ : اللہ کا بندہ اٰتٰىنِيَ : اس نے مجھے دی ہے الْكِتٰبَ : کتاب وَجَعَلَنِيْ : اور مجھے بنایا ہے نَبِيًّا : نبی
اس نے کہا بیشک میں اللہ کا بندہ ہوں، اس نے مجھے کتاب دی اور مجھے نبی بنایا ہے۔
قَالَ اِنِّىْ عَبْدُ اللّٰهِ : گویا سب سے پہلا کلمہ جو عیسیٰ ؑ نے اپنی زبان سے ادا کیا وہ اللہ تعالیٰ کی بندگی کا اعتراف تھا، جو ان کے خود اللہ تعالیٰ ہونے یا اللہ تعالیٰ کا بیٹا ہونے یا تین معبودوں میں سے ایک ہونے کی صاف نفی ہے۔ اٰتٰىنِيَ الْكِتٰبَ : ظاہر ہے کہ کتاب اور نبوت کا ملنا کچھ مدت بعد ہی ہوا ہوگا، کیونکہ دودھ پیتا بچہ نبوت کے فرائض دعوت و تبلیغ، اصلاح امت وغیرہ کیسے ادا کرسکتا ہے ؟ اس لیے اس کے دو معنی ہوسکتے ہیں اور دونوں ہی درست ہیں۔ ایک تو یہ کہ ازل سے اللہ تعالیٰ نے میرا نبی ہونا اور مجھے کتاب ملنا لکھ دیا ہے، جیسا کہ ہمارے نبی کریم ﷺ نے فرمایا : (کُنْتُ نَبِیًّا وَآدَمُ بَیْنَ الرُّوْحِ وَالْجَسَدِ) [ صحیح الجامع للألباني : 4581، عن میسرۃ الفجر ؓ ]”میں اس وقت نبی تھا جب آدم ؑ روح اور جسم کے درمیان تھے۔“ حالانکہ اس بات پر اتفاق ہے کہ آپ ﷺ کو چالیس برس کی عمر میں نبوت عطا ہوئی، اس لیے مراد تقدیر میں نبی لکھا ہونا ہے۔ دوسرا معنی یہ کہ ماضی کا لفظ بول کر مستقبل مراد لیا ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کے فیصلے اتنے یقینی ہیں کہ سمجھو واقع ہوچکے ہیں۔ یہ اندازبیان قرآن مجید میں عام ہے، جیسے قیامت کے متعلق فرمایا : (اَتٰٓى اَمْرُ اللّٰهِ فَلَا تَسْتَعْجِلُوْهُ) [ النحل : 1 ] ”اللہ کا حکم آگیا، سو اس کے جلدی آنے کا مطالبہ مت کرو۔“ اسی طرح سورة زمر کی آیت (68) میں ماضی کے چاروں صیغے مستقبل کے معنی میں ہیں۔
Top