Al-Quran-al-Kareem - Maryam : 31
وَّ جَعَلَنِیْ مُبٰرَكًا اَیْنَ مَا كُنْتُ١۪ وَ اَوْصٰنِیْ بِالصَّلٰوةِ وَ الزَّكٰوةِ مَا دُمْتُ حَیًّا٢۪ۖ
وَّجَعَلَنِيْ : اور مجھے بنایا ہے مُبٰرَكًا : بابرکت اَيْنَ مَا : جہاں کہیں كُنْتُ : میں ہوں ‎وَاَوْصٰىنِيْ : مجھے حکم دیا ہے اس نے بِالصَّلٰوةِ : نماز کا وَالزَّكٰوةِ : اور زکوۃ کا مَا دُمْتُ : جب تک میں رہوں حَيًّا : زندہ
اور مجھے بابرکت بنایا جہاں بھی میں ہوں اور مجھے نماز اور زکوٰۃ کی وصیت کی، جب تک میں زندہ رہوں۔
ۙوَّجَعَلَنِيْ مُبٰرَكًا اَيْنَ مَا كُنْتُ ۠ : ”مُبٰرَكًا“ یہاں باب مفاعلہ مقابلے کے معنی میں نہیں بلکہ مبالغہ کے لیے ہے، یعنی بہت برکت والا۔ برکت کا معنی خیر کثیر ہے جو ”بِرْکَۃٌ“ سے ہے، جس کا معنی تالاب ہے جس میں بہت پانی ہوتا ہے، یعنی اللہ تعالیٰ نے مجھے لوگوں کے لیے بہت خیر و برکت اور نفع پہنچانے والا بنایا ہے۔ ‎وَاَوْصٰىنِيْ بالصَّلٰوةِ وَالزَّكٰوةِ : نماز اور زکاۃ کی خاص تاکید کی وجہ کے لیے دیکھیے سورة توبہ (5، 11) اس آیت سے معلوم ہوا کہ نماز، زکاۃ اور شریعت کے دوسرے احکام موت تک کسی کو معاف نہیں۔ ہمارے نبی کریم ﷺ کو بھی فوت ہونے تک عبادت کا حکم ہوا، چناچہ فرمایا : (وَاعْبُدْ رَبَّكَ حَتّٰى يَاْتِيَكَ الْيَقِيْنُ) [ الحجر : 99 ] ”اور اپنے رب کی عبادت کر، یہاں تک کہ تیرے پاس یقین (موت) آجائے۔“ موسیٰ ؑ کو نبوت ملی تو توحید کی تاکید کے بعد نماز کا حکم ہوا۔ دیکھیے سورة طٰہٰ (14) ابراہیم ؑ نے اللہ تعالیٰ سے اپنے اور اپنی اولاد کے لیے نماز کا پابند رہنے کی دعا کی۔ دیکھیے سورة ابراہیم (40) جب اولوالعزم پیغمبروں کو کسی صورت نماز معاف نہیں ہوئی تو بعض صوفیوں کو کیسے معاف ہوگئی اور پیغمبروں کو صرف دل کی نماز کافی نہیں ہوئی تو انھیں کیسے کافی ہوگئی ؟ درحقیقت یہ لوگ اسی سورة مریم کی آیت (59) کی حقیقی تصویر ہیں۔ 3 چونکہ اللہ تعالیٰ کے علم میں پہلے سے یہ بات موجود تھی کہ کچھ لوگ عیسیٰ ؑ کو معبود بنائیں گے، اس لیے انھیں ساری زندگی نماز اور زکاۃ کا حکم دیا، تاکہ سب لوگ جان لیں کہ جو خود کسی معبود کے سامنے نماز پڑھتا ہے وہ کسی صورت معبود نہیں ہوسکتا۔ (بقاعی)
Top