Al-Quran-al-Kareem - Maryam : 39
وَ اَنْذِرْهُمْ یَوْمَ الْحَسْرَةِ اِذْ قُضِیَ الْاَمْرُ١ۘ وَ هُمْ فِیْ غَفْلَةٍ وَّ هُمْ لَا یُؤْمِنُوْنَ
وَاَنْذِرْهُمْ : اور ان کو ڈراویں آپ يَوْمَ الْحَسْرَةِ : حسرت کا دن اِذْ : جب قُضِيَ : فیصلہ کردیاجائیگا الْاَمْرُ : کام وَهُمْ : لیکن وہ فِيْ غَفْلَةٍ : غفلت میں ہیں وَّهُمْ : اور وہ لَا يُؤْمِنُوْنَ : ایمان نہیں لاتے
اور انھیں پچھتاوے کے دن سے ڈرا جب (ہر) کام کا فیصلہ کردیا جائے گا اور وہ سراسر غفلت میں ہیں اور وہ ایمان نہیں لاتے۔
وَاَنْذِرْهُمْ يَوْمَ الْحَسْرَةِ۔۔ : مراد قیامت کا دن ہے جس میں حسرت اور پچھتاوے کے سوا کوئی چارۂ کار نہ ہوگا۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے سورة زمر (56) ، انعام (31) اور بقرہ (167)۔ اِذْ قُضِيَ الْاَمْرُ ۘ وَهُمْ فِيْ غَفْلَةٍ۔۔ : ابوسعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (یُؤْتٰی بالْمَوْتِ کَھَیْءَۃِ کَبْشٍ أَمْلَحَ فَیُنَادِيْ مُنَادٍ یَا أَھْلَ الْجَنَّۃِ ! فَیَشْرَءِبُّوْنََ وَ یَنْظُرُوْنَ فَیَقُوْلُ ھَلْ تَعْرِفُوْنَ ھٰذَا ؟ فَیَقُوْلُوْنَ نَعَمْ ھٰذَا الْمَوْتُ وَکُلُّھُمْ قَدْ رَاٰہُ ثُمَّ یُنَادِیْ یَا أَہْلَ النَّارِ ! فَیَشْرَءِبُّوْنَ وَ یَنْظُرُوْنَ فَیَقُوْلُ ہَلْ تَعْرِفُوْنَ ہٰذَا ؟ فَیَقُوْلُوْنَ نَعَمْ ، ہٰذَا الْمَوْتُ وَ کُلُّہُمْ قَدْ رَاٰہُ فَیُذْبَحُ ثُمَّ یَقُوْلُ یَا أَہْلَ الْجَنَّۃِ ! خُلُوْدٌ فَلَا مَوْتَ وَ یَا أَھْلَ النَّارِ ! خُلُوْدٌ فَلاَ مَوْتَ ، ثُمَّ قَرَأَ : (وَاَنْذِرْهُمْ يَوْمَ الْحَسْرَةِ اِذْ قُضِيَ الْاَمْرُ وَهُمْ فِيْ غَفْلَةٍ) وَھٰؤُلَاءِ فِيْ غَفْلَۃٍ أَھْلُ الدُّنْیَا (وَّهُمْ لَا يُؤْمِنُوْنَ) [ بخاري، التفسیر، باب قولہ عز وجل : (و أنذرھم یوم الحسرۃ): 4730 ] ”موت کو ایک چتکبرے مینڈھے کی شکل میں لایا جائے گا، پھر ایک آواز دینے والا آواز دے گا : ”اے جنت والو !“ تو وہ سر اٹھائیں گے اور دیکھیں گے۔ وہ کہے گا : ”کیا تم اسے پہچانتے ہو ؟“ وہ کہیں گے : ”ہاں ! یہ موت ہے“ اور وہ سب اسے دیکھ چکے ہوں گے، پھر وہ آواز دے گا : ”اے آگ والو !“ تو وہ سر اٹھائیں گے اور دیکھیں گے، وہ کہے گا : ”کیا تم اسے پہچانتے ہو ؟“ وہ کہیں گے : ”ہاں ! یہ موت ہے“ اور وہ سب اسے دیکھ چکے ہوں گے تو اسے ذبح کردیا جائے گا۔ پھر وہ کہے گا : ”اے جنت والو ! (اب) ہمیشگی ہے، کوئی موت نہیں اور اے آگ والو ! (اب) ہمیشگی ہے، کوئی موت نہیں۔“ پھر آپ ﷺ نے یہ آیت پڑھی : (وَاَنْذِرْهُمْ يَوْمَ الْحَسْرَةِ اِذْ قُضِيَ الْاَمْرُ ۘ وَهُمْ فِيْ غَفْلَةٍ) (اور انھیں پچھتاوے کے دن سے ڈرا جب فیصلہ کردیا جائے گا اور وہ سراسر غفلت میں ہیں) یعنی وہ سراسر دنیا کی غفلت میں ہیں اور ایمان نہیں لاتے۔“ نبی ﷺ کا موت کے ذبح کے ذکر کے بعد اس آیت کو پڑھنا دلیل ہے کہ ”قُضِيَ الْاَمْرُ“ (فیصلہ کردیے جانے) سے مراد موت کا ذبح کردیا جانا ہے۔ مسند احمد (3؍9، ح : 11072) میں اسی حدیث کے شروع میں ہے کہ جب (تمام) جنتی جنت میں اور جہنمی جہنم میں چلے جائیں گے۔
Top