Al-Quran-al-Kareem - Maryam : 47
قَالَ سَلٰمٌ عَلَیْكَ١ۚ سَاَسْتَغْفِرُ لَكَ رَبِّیْ١ؕ اِنَّهٗ كَانَ بِیْ حَفِیًّا
قَالَ : اس نے کہا سَلٰمٌ : سلام عَلَيْكَ : تجھ پر سَاَسْتَغْفِرُ : میں ابھی بخشش مانگوں گا لَكَ : تیرے لیے رَبِّيْ : اپنا رب اِنَّهٗ : بیشک وہ كَانَ : ہے بِيْ : مجھ پر حَفِيًّا : مہربان
کہا تجھ پر سلام ہو، میں اپنے رب سے تیرے لیے ضرور بخشش کی دعا کروں گا، بیشک وہ ہمیشہ سے مجھ پر بہت مہربان ہے۔
قَالَ سَلٰمٌ عَلَيْكَ : ابراہیم ؑ نے اپنے جاہل باپ کے اس سنگ دلانہ جواب کے مقابلے میں پھر انتہائی نرمی کا مظاہرہ کیا اور اسے ”سَلٰمٌ عَلَيْكَ“ کہا کہ آپ سلامت رہیں۔ جاہلوں کے جواب میں ہمیں بھی یہی کہنے کی تعلیم دی گئی ہے۔ دیکھیے سورة فرقان (63) اور قصص (55) جب کوئی ضد اور عناد پر تل جائے تو یہ رخصت ہونے اور ترک تعلق کا سلام ہے اور یہ جائز ہے، البتہ عام حالات میں کفار کو سلام میں پہل جائز نہیں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (لَا تَبْدَءُ وا الْیَھُوْدَ وَلا النَّصَارٰی بالسَّلَامِ) [ مسلم، السلام، باب النھي عن ابتداء أھل الکتاب۔۔ : 2167، عن أبي ہریرہ ؓ ] ”یہود و نصاریٰ کو سلام میں پہل مت کرو۔“ سَاَسْتَغْفِرُ لَكَ رَبِّيْ : ابراہیم ؑ نے اس وعدے کو نبھایا، دیکھیے سورة شعراء (86) اور ابراہیم (41) مگر اب فوت شدہ مشرک دوستوں یا رشتہ داروں کے لیے استغفار جائز نہیں۔ تفصیل کے لیے دیکھیے سورة توبہ (113) اور سورة ممتحنہ (4)۔rnۭاِنَّهٗ كَانَ بِيْ حَفِيًّا : ”حَفِيًّا“ ”حَفِیَ حِفَاوَۃً“ (رَضِیَ) سے ہے، کسی پر بہت مہربان ہونا، اس کے معاملات کی فکر رکھنا، اس کے متعلق کثرت سے پوچھتے رہنا۔ مزید دیکھیے سورة اعراف (187) ”کَانَ“ سے ہمیشہ کا معنی واضح ہوتا ہے، یعنی اللہ تعالیٰ ہمیشہ سے مجھ پر بہت مہربان رہا ہے اور اس نے مجھے دعا قبول ہونے کی عادت ڈال دی ہے۔
Top