Al-Quran-al-Kareem - Maryam : 4
قَالَ رَبِّ اِنِّیْ وَهَنَ الْعَظْمُ مِنِّیْ وَ اشْتَعَلَ الرَّاْسُ شَیْبًا وَّ لَمْ اَكُنْۢ بِدُعَآئِكَ رَبِّ شَقِیًّا
قَالَ : اس نے کہا رَبِّ : اے میرے رب اِنِّىْ : بیشک میں وَهَنَ : کمزور ہوگئی الْعَظْمُ : ہڈیاں مِنِّيْ : میری وَاشْتَعَلَ : اور شعلہ مارنے لگا الرَّاْسُ : سر شَيْبًا : سفید بال وَّ : اور لَمْ اَكُنْ : میں نہیں رہا بِدُعَآئِكَ : تجھ سے مانگ کر رَبِّ : اے میرے رب شَقِيًّا : محروم
کہا اے میرے رب ! یقینا میں ہوں کہ میری ہڈیاں کمزور ہوگئیں اور سر بڑھاپے سے شعلے مارنے لگا اور اے میرے رب ! میں تجھے پکارنے میں کبھی بےنصیب نہیں ہوا۔
قَالَ رَبِّ اِنِّىْ وَهَنَ الْعَظْمُ۔۔ : ’ الْعَظْمُ“ اگرچہ واحد ہے مگر مراد جنس ہے، یعنی میری جو ہڈی بھی ہے کمزور ہوگئی ہے۔ اگر جمع کا لفظ بولتے ”اَلْعِظَامُ“ یعنی ہڈیاں، تو اس سے ہڈیوں کا کوئی مجموعہ بھی مراد ہوسکتا تھا۔ ”َاشْتَعَلَ الرَّاْسُ“ سارے سر کے بال سفید ہونے کو آگ کے شعلے مارنے سے تشبیہ دے کر آگ کا لفظ حذف کردیا اور بڑھاپے کی وجہ سے سر کو شعلے مارنے والا بنادیا، اسے استعارہ کہتے ہیں۔ ان الفاظ میں اپنی انتہائی کمزوری کا ذکر کرکے اللہ تعالیٰ سے دعا کی ہے، کیونکہ وہ کمزوروں پر زیادہ رحم فرماتا ہے۔ یہ دعا کے آداب میں سے ایک ادب ہے۔ وَّلَمْ اَكُنْۢ بِدُعَاۗىِٕكَ رَبِّ شَقِيًّا : ”کَانَ“ ہمیشگی کے لیے ہوتا ہے، اس پر نفی آنے سے نفی کی ہمیشگی مراد ہوتی ہے کہ ایسا کبھی نہیں ہوا، اس لیے ترجمہ ”میں کبھی بےنصیب نہیں ہوا“ کیا گیا ہے۔ اس میں اپنے آپ پر اللہ تعالیٰ کے ہمیشہ لطف و کرم کا واسطہ دے کر دعا کی ہے، خصوصاً اس بات کا واسطہ دے کر کہ تو نے مجھے ہمیشہ دعا قبول ہوجانے کی عادت ڈال دی ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کے اسماء وصفات کا ذکر کرکے دعا کرنا بھی دعا کے آداب میں شامل ہے، جیسا کہ سورة فاتحہ میں عرض مطلب سے پہلے اللہ تعالیٰ کی تعریف ہے۔ علاوہ ازیں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (وَلِلّٰهِ الْاَسْمَاۗءُ الْحُسْنٰى فَادْعُوْهُ بِهَا) [ الأعراف : 180 ] ”اور سب سے اچھے نام اللہ ہی کے ہیں، سو اسے ان کے ساتھ پکارو۔“
Top