Al-Quran-al-Kareem - Maryam : 51
وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ مُوْسٰۤى١٘ اِنَّهٗ كَانَ مُخْلَصًا وَّ كَانَ رَسُوْلًا نَّبِیًّا
وَاذْكُرْ : اور یاد کرو فِي الْكِتٰبِ : کتاب میں مُوْسٰٓى : موسیٰ اِنَّهٗ : بیشک وہ كَانَ : تھا مُخْلَصًا : برگزیدہ وَّكَانَ : اور تھا رَسُوْلًا : رسول نَّبِيًّا : نبی
اور کتاب میں موسیٰ کا ذکر کر، یقینا وہ خالص کیا ہوا تھا اور ایسا رسول جو نبی تھا۔
ۧوَاذْكُرْ فِي الْكِتٰبِ مُوْسٰٓى ۡ اِنَّهٗ كَانَ مُخْلَصًا : ”مُخْلَصًا“ کا معنی ہے ”خالص کیا ہوا، چنا ہوا۔“ اس کی تائید اللہ تعالیٰ کے فرمان : (وَاصْطَنَعْتُكَ لِنَفْسِيْ) [ طٰہٰ : 41 ] (اور میں نے تجھے خاص طور پر اپنے لیے بنایا ہے) ، طٰہٰ کی آیت (13) اور اعراف کی آیت (144) سے ہوتی ہے۔ وَّكَانَ رَسُوْلًا نَّبِيًّا : ”رَسُوْلًا“ کا لفظی معنی بھیجا ہوا ہے اور ”نَّبِيًّا“ ، ”نَبَأٌ“ سے ”فَعِیْلٌ“ کے وزن پر ہے جو فاعل اور مفعول دونوں معنوں میں آتا ہے۔ مفعول ہو تو وہ جسے اللہ کی طرف سے خبر دی جائے اور اگر فاعل ہو تو وہ جو اللہ کی طرف سے خبر دینے والا ہو۔ ”نَبَأٌ“ عام خبر کو نہیں بلکہ اس خبر کو کہتے ہیں جو بڑی عجیب یا اہم ہو۔ قرآن مجید میں یہ دونوں لفظ عموماً ایک دوسرے کی جگہ استعمال ہوئے ہیں، تاہم بعض مقامات ایسے ہیں جن سے دونوں کے مرتبہ یا کام کی نوعیت کے اعتبار سے کافی فرق پایا جاتا ہے۔ دیکھیے سورة حج (52) شاہ عبد القادر ؓ لکھتے ہیں : ”جس کو اللہ تعالیٰ کی وحی آئی وہ نبی، ان میں سے جو خاص ہیں اور امت رکھتے ہیں یا کتاب، وہ رسول ہیں۔“ (موضح) یہاں ”رَسُوْلًا“ کے بعد ”نَّبِيًّا“ لانے کی ایک حکمت یہ بھی ہوسکتی ہے کہ پیغام پہنچانے کے لیے کوئی بھی بھیجا جائے اسے رسول کہا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ بھیجے تو اس کا رسول، کوئی اور بھیجے تو اس کا رسول۔ جیسا کہ بعض مفسرین کے قول کے مطابق سورة یس میں مذکور مرسلین کسی نبی کی طرف سے بھیجے ہوئے داعی تھے اور جیسا کہ یزید بن شیبان ؓ فرماتے ہیں کہ ہم عرفات میں ایک جگہ وقوف کیے ہوئے تھے (ان کے شاگرد عمرو بن عبداللہ وہ جگہ امام کی جگہ سے دور بیان کرتے تھے) تو ہمارے پاس ابن مربع انصاری آئے اور انھوں نے کہا : (إِنِّيْ رَسُوْلُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِلَیْکُمْ) [ أبوداوٗد، المناسک، باب موضع الوقوف بعرفۃ : 1919۔ ابن ماجہ : 3011 و صححہ الألباني ] ”میں تمہاری طرف رسول اللہ ﷺ کا رسول یعنی پیغام لانے والا ہوں۔“ اس آیت میں ”رسول“ کی تاکید ”نبیا“ کے ساتھ اس لیے فرمائی کہ موسیٰ ؑ کو کسی کی طرف سے بھیجا ہوا محض ایک داعی نہ سمجھا جائے، بلکہ وہ نبی بھی تھے جو وحی الٰہی سے سرفراز تھے۔
Top