Al-Quran-al-Kareem - Maryam : 55
وَ كَانَ یَاْمُرُ اَهْلَهٗ بِالصَّلٰوةِ وَ الزَّكٰوةِ١۪ وَ كَانَ عِنْدَ رَبِّهٖ مَرْضِیًّا
وَكَانَ يَاْمُرُ : اور حکم دیتے تھے اَهْلَهٗ : اپنے گھروالے بِالصَّلٰوةِ : نماز کا وَالزَّكٰوةِ : اور زکوۃ وَكَانَ : اور وہ تھے عِنْدَ رَبِّهٖ : اپنے رب کے ہاں مَرْضِيًّا : پسندیدہ
اور وہ اپنے گھر والوں کو نماز اور زکوٰۃ کا حکم دیتا تھا اور وہ اپنے رب کے ہاں پسند کیا ہوا تھا۔
وَكَانَ يَاْمُرُ اَهْلَهٗ بالصَّلٰوةِ وَالزَّكٰوةِ : اسماعیل ؑ کے اس عمل کی پابندی کا حکم ہمارے نبی ﷺ کو اور ان کے ذریعے سے ہمیں بھی دیا گیا، چناچہ فرمایا : (وَاْمُرْ اَهْلَكَ بالصَّلٰوةِ وَاصْطَبِرْ عَلَيْهَا ۭ لَا نَسْــَٔــلُكَ رِزْقًا ۭ نَحْنُ نَرْزُقُكَ ۭ وَالْعَاقِبَةُ للتَّقْوٰى) [ طٰہٰ : 132 ] ”اور اپنے گھر والوں کو نماز کا حکم دے اور اس پر خوب پابند رہ، ہم تجھ سے کسی رزق کا مطالبہ نہیں کرتے، ہم ہی تجھے رزق دیں گے اور اچھا انجام تقویٰ کا ہے۔“ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو آگ سے بچانے کا حکم دیا۔ دیکھیے سورة تحریم (6)۔ وَكَانَ عِنْدَ رَبِّهٖ مَرْضِيًّا : رب تعالیٰ کے ہاں پسندیدہ ہونے کا باعث سب سے پہلے تو خود اس ذات پاک کا کسی کو منتخب فرما لینا ہے، جیسا کہ فرمایا : (اَللّٰهُ يَصْطَفِيْ مِنَ الْمَلٰۗىِٕكَةِ رُسُلًا وَّمِنَ النَّاسِ) [ الحج : 75 ] ”اللہ فرشتوں میں سے پیغام پہنچانے والے چنتا ہے اور لوگوں سے بھی۔“ اور فرمایا : (اَللّٰهُ يَجْتَبِيْٓ اِلَيْهِ مَنْ يَّشَاۗءُ وَيَهْدِيْٓ اِلَيْهِ مَنْ يُّنِيْبُ) [ الشورٰی : 13 ] ”اللہ اپنی طرف چن لیتا ہے جسے چاہتا ہے اور اپنی طرف راستہ اسے دیتا ہے جو رجوع کرے۔“ پھر اللہ تعالیٰ کے ہاں پسندیدہ (مَرْضِيًّا) ہونے کا ذریعہ رسول اللہ ﷺ کے فرمان کے مطابق کسی بندے کا فرائض کی ادائیگی اور نوافل کی کثرت ہے جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اس سے محبت کرنے لگتا ہے۔ [ دیکھیے بخاري، الرقاق، باب التواضع : 6502، عن أبي ہریرہ ؓ ] اور ابوہریرہ ؓ ہی سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (إِذَا أَحَبَّ اللّٰہُ الْعَبْدَ نَادَی جِبْرِیْلَ إِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ فُلاَنًا فَأَحْبِبْہُ فَیُحِبُّہُ جِبْرِیْلُ فَیُنَادِيْ جِبْرِیْلُ فِيْ أَھْلِ السَّمَاءِ إِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ فُلَانًا فَأَحِبُّوْہُ فَیُحِبُّہُ أَھْلُ السَّمَاءِ ثُمَّ یُوْضَعُ لَہٗ الْقَبُوْلُ فِي الْاَرْضِ) [ بخاري، بدء الخلق، باب ذکر الملائکۃ صلوات اللّٰہ علیھم : 3209 ] ”اللہ تعالیٰ جب کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو جبریل ؑ کو آواز دیتا ہے کہ اللہ تعالیٰ فلاں سے محبت کرتا ہے سو تو بھی اس سے محبت کر، تو جبریل اس سے محبت کرتا ہے، پھر جبریل آسمان والوں میں اعلان کردیتا ہے کہ اللہ تعالیٰ فلاں سے محبت کرتا ہے، تم بھی اس سے محبت کرو تو آسمان والے اس سے محبت کرتے ہیں، پھر اس کے لیے زمین میں قبولیت رکھ دی جاتی ہے۔“ ”مَرْضِيًّا“ کا حقیقی مصداق ایسا شخص ہوتا ہے۔
Top