Al-Quran-al-Kareem - Maryam : 61
جَنّٰتِ عَدْنِ اِ۟لَّتِیْ وَعَدَ الرَّحْمٰنُ عِبَادَهٗ بِالْغَیْبِ١ؕ اِنَّهٗ كَانَ وَعْدُهٗ مَاْتِیًّا
جَنّٰتِ عَدْنِ : ہمیشگی کے باغات الَّتِيْ : وہ جو وَعَدَ : وعدہ کیا الرَّحْمٰنُ : رحمن عِبَادَهٗ : اپنے بندے (جمع) بِالْغَيْبِ : غائبانہ اِنَّهٗ : بیشک وہ كَانَ : ہے وَعْدُهٗ : اس کا وعدہ مَاْتِيًّا : آنے والا
ہمیشگی کے باغات میں، جن کا رحمان نے اپنے بندوں سے (ان کے) بن دیکھے وعدہ کیا ہے۔ بلاشبہ حقیقت یہ ہے کہ اس کا وعدہ ہمیشہ سے پورا ہو کر رہنے والا ہے۔
جَنّٰتِ عَدْنِۨ الَّتِيْ وَعَدَ الرَّحْمٰنُ۔۔ : ہمیشگی کی جنتوں کا وعدہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے اپنے رحمٰن ہونے اور بندوں کو اپنا بندہ کہنے کے الفاظ سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس کی رحمت کس قدر بےحساب و بےکنار ہے اور فرماں بردار بندوں سے اس کا تعلق کتنا گہرا اور پیارا ہے۔ ”بن دیکھے“ کا مطلب یہ ہے کہ بندوں سے اس رحمٰن نے وعدہ کیا ہے جس رحمٰن کو انھوں نے نہیں دیکھا، یعنی بن دیکھے اس پر ایمان لائے ہیں۔ دوسرا معنی ہے کہ رحمٰن نے ان سے ایسی جنتوں کا وعدہ کیا ہے جو انھوں نے دیکھی نہیں مگر انھیں دیکھے بغیر ہی ان کے ملنے کا یقین ہے، کیونکہ یہ حقیقت ہے کہ رحمٰن کا وعدہ ہمیشہ پورا ہو کر رہنے والا ہے۔ ”اِنَّ“ تعلیل کے لیے ہے۔ ”مَاْتِيًّا“ ”أَتَی یَأْتِيْ“ سے اسم مفعول ہے۔ اللہ کا وعدہ جنت ہے اور اس کے بندے یقیناً اس میں آنے والے ہیں، یہ بات اس لیے فرمائی کہ عموماً لوگ ان دیکھی چیزوں کے کیے ہوئے وعدے پورے نہیں کرتے۔ (بقاعی) اللہ کا وعدہ پورا ہو کر رہنے پر مشتمل آیات کے لیے دیکھیے سورة رعد (31) ، آل عمران (194، 195) ، بنی اسرائیل (108) ، مزمل (17، 18) اور فرقان (15، 16)۔
Top