Al-Quran-al-Kareem - Maryam : 67
اَوَ لَا یَذْكُرُ الْاِنْسَانُ اَنَّا خَلَقْنٰهُ مِنْ قَبْلُ وَ لَمْ یَكُ شَیْئًا
اَوَ : کیا لَا يَذْكُرُ : یاد نہیں کرتا الْاِنْسَانُ : انسان اَنَّا : بیشک ہم خَلَقْنٰهُ : ہم نے اسے پیدا کیا مِنْ قَبْلُ : اس سے قبل وَلَمْ يَكُ : جبکہ وہ نہ تھا شَيْئًا : کچھ بھی
اور کیا انسان یاد نہیں کرتا کہ بیشک ہم نے ہی اسے اس سے پہلے پیدا کیا، جب کہ وہ کوئی چیز نہ تھا۔
اَوَلَا يَذْكُرُ الْاِنْسَانُ اَنَّا خَلَقْنٰهُ۔۔ : تو کیا جس ذات پاک نے اس وقت اسے پیدا فرمایا جب یہ کچھ بھی نہ تھا، اس کے لیے یہ مشکل ہے کہ مرنے کے بعد اسے دوبارہ زندگی دے سکے ؟ دوبارہ زندہ کرنے کی یہ سب سے قوی دلیل ہے جو اللہ تعالیٰ نے بار بار قرآن مجید میں بیان فرمائی ہے۔ دیکھیے سورة دہر (1، 2) ، واقعہ (43 تا 62) ، روم (27) ، حج (5) ، بنی اسرائیل (51) اور انبیاء (104) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (قَال اللّٰہُ تَعَالٰی کَذَّبَنِيْ ابْنُ آدَمَ وَلَمْ یَکُنْ لَہُ ذٰلکَ ، وَشَتَمَنِيْ وَلَمْ یَکُنْ لَہُ ذٰلِکَ ، فَأَمّا تَکْذِیْبُہُ إِیَّايَ فَقَوْلُہُ : لَنْ یُعِیْدَنِيْ کَمَا بَدأَنِيْ ، وَ لَیْسَ أَوَّلُ الْخَلْقِ بِأَھْوَنَ عَلَيَّ مِنْ إِعَادَتِہِ ، وَ أَمَّا شَتْمُہُ إِیَّايَ فَقَوْلُہُ اتَّخَذَ اللّٰہُ وَلَدًا، وَأَنَا الْأَحَدُ الصَّمَدُ ، لَمْ أَلِدْ وَلَمْ أُوْلَدْ ، وَلَمْ یَکُنْ لِّيْ کُفُوًا أَحَدٌ) [ بخاري، التفسیر، باب تفسیر سورة (قل ھو اللّٰہ أحد) : 4974، عن أبي ہریرہ ؓ ]”اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، ابن آدم نے مجھے جھٹلایا حالانکہ یہ اس کا حق نہ تھا اور ابن آدم نے مجھے گالی دی حالانکہ یہ اس کا حق نہ تھا، اس کا مجھے جھٹلانا تو اس کا یہ کہنا ہے کہ جس طرح اس نے مجھے پہلے پیدا کیا دوبارہ پیدا نہیں کرے گا، حالانکہ مجھے پہلی دفعہ پیدا کرنا دوبارہ پیدا کرنے سے زیادہ آسان نہیں اور رہا اس کا مجھے گالی دینا، تو اس کا یہ کہنا ہے کہ اللہ نے اولاد بنا رکھی ہے، حالانکہ میں ایک ہوں، بےنیاز ہوں، نہ میں نے کسی کو جنا، نہ کسی نے مجھے جنا اور نہ ہی کبھی میرا کوئی ہمسر ہے۔“
Top