Al-Quran-al-Kareem - Maryam : 72
ثُمَّ نُنَجِّی الَّذِیْنَ اتَّقَوْا وَّ نَذَرُ الظّٰلِمِیْنَ فِیْهَا جِثِیًّا
ثُمَّ : پھر نُنَجِّي : ہم نجات دینگے الَّذِيْنَ اتَّقَوْا : وہ جنہوں نے پرہیزگاری کی وَّنَذَرُ : اور ہم چھوڑ دینگے الظّٰلِمِيْنَ : ظالم (جمع) فِيْهَا : اس میں جِثِيًّا : گھٹنوں کے بل گرے ہوئے
پھر ہم ان لوگوں کو بچالیں گے جو ڈر گئے اور ظالموں کو اس میں گھٹنوں کے بل گرے ہوئے چھوڑ دیں گے۔
ۚثُمَّ نُـنَجِّي الَّذِيْنَ اتَّقَوْا۔۔ : یعنی پھر ہم پرہیزگاروں کو جہنم سے بچا لیں گے (صراط سے سلامت گزار کر یا صراط سے جہنم میں گرنے کے بعد) اور کافروں کو ہمیشہ کے لیے اسی میں گرے ہوئے چھوڑ دیں گے۔ انبیاء، صدیقین، شہداء، صالحین اور عام مسلمان جہنم کے اوپر صراط سے اپنے اعمال کے مطابق تیزی سے یا گرتے پڑتے گزر جائیں گے اور کافر اور زیادہ گناہ گار مسلمان پل پر سے جہنم میں گرپڑیں گے، پھر اللہ تعالیٰ ایمان والوں کو سزا پوری ہونے کے بعد یا شفاعت سے یا محض اپنے فضل سے جہنم سے نکال لے گا اور صرف کافر و مشرک ہمیشہ آگ میں رہیں گے۔ اس کی دلیل ابوسعید خدری ؓ کی حدیث ہے، جس میں رسول اللہ ﷺ نے آخرت میں رب تعالیٰ کو دیکھنے کا ذکر فرمایا، اس میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : (ثُمَّ یُؤْتی بالْجَسْرِ فَیُجْعَلُ بَیْنَ ظَھْرَيْ جَھَنَّمَ ، قُلْنَا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ! وَمَا الْجَسْرُ ؟ قالَ مَدْحَضَۃٌ مَزِلَّۃٌ عَلَیْہِ خَطَاطِیْفُ وَکَلاَلِیْبُ ، وَحَسَکَۃٌ مُفَلْطَحَۃٌ لَھَا شَوْکَۃٌ عَقِیْفَۃٌ تَکُوْنُ بِنَجْدٍ ، یُقَالُ لَھَا السَّعْدَانُ ، الْمُؤْمِنُ عَلَیْھَا کَالطَّرْفِ وَکَالْبَرْقِ وَکَالرِّیْحِ وَکَأَجَاوِیْدِ الْخَیْلِ وَالرِّکَابِ ، فَنَاجٍ مُسَلَّمٌ، وَنَاجٍ مَخْدُوْشٌ، وَمَکْدُوْسٌ فِيْ نَارِ جَھَنَّمَ ، حَتّٰی یَمُرَّ آخِرُھُمْ یُسْحَبُ سَحْبًا، فَمَا أَنْتُمْ بِأَشَدَّ لِيْ مُنَاشَدَۃً فِي الْحَقِّ ، قَدْ تَبَیَّنَ لَکُمْ مِنَ الْمُؤْمِنِ یَوْمَءِذٍ لِلْجَبَّارِ ، وَ إِذَا رَأَوْا أَنَّھُمْ قَدْ نَجَوْا فِيْ إِخْوَانِھِمْ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا إِخْوَانُنَا کَانُوْا یُصَلُّوْنَ مَعَنَا وَیَصُوْمُوْنَ مَعَنَا وَیَعْمَلُوْنَ مَعَنَا، فَیَقُوْلُ اللّٰہُ تَعَالَی : اذْھَبُوْا فَمَنْ وَجَدْتُمْ فِيْ قَلْبِہِ مِثْقَالَ دِیْنَارٍ مِنْ إِیْمَانٍ فَأَخْرِجُوْہُ۔۔ فَیَشْفَعُ النَّبِیُّوْنَ وَالْمَلَاءِکَۃُ وَالْمُؤْمِنُوْنَ فَیَقُوْلُ الْجَبَّارُ بَقِیَتْ شَفَاعَتِيْ ، فَیَقْبِضُ قَبْضَۃً مِنَ النَّارِ فَیُخْرِجُ أَقْوَامًا قَدِ امْتُحِشُوْا) [ بخاری، التوحید، باب : (وجوہ یومئذ ناضرۃ۔۔) : 7439، عن أبي سعید الخدري ؓ] ”پھر حسر (پل) کو لایا جائے گا اور اسے جہنم کے درمیان رکھ دیا جائے گا۔“ ہم نے کہا : ”یا رسول اللہ ! اور وہ حسر (پل) کیا چیز ہے ؟“ آپ نے فرمایا : ”وہ بہت پھسلانے والا ہے، اس پر کنڈے اور آنکڑے ہیں اور بہت چوڑے گوگھرو (ایک کانٹا جو سہ گوشہ ہوتا ہے) ، جن میں مڑے ہوئے کانٹے ہیں، جو نجد میں ہوتے ہیں، انھیں سعدان کہتے ہیں، مومن اس پر سے نگاہ کی طرح اور بجلی کی طرح اور آندھی کی طرح اور بہترین گھڑ سواروں اور اونٹ کے سواروں کی طرح گزر جائیں گے، پھر کوئی صحیح سلامت بچ کر نکلنے والا ہوگا، کوئی زخمی ہو کر بچ نکلنے والا، کوئی جہنم کی آگ میں گرا دیا جانے والا، یہاں تک کہ ان کا آخری شخص گھسٹتا ہوا گزر جائے گا۔ تو تم مجھ سے اس حق کا، جو بالکل واضح ہوچکا ہو، اس سے زیادہ مطالبہ کرنے والے نہیں جس قدر مومن اپنے بھائیوں کے بارے میں اس دن جبار (اللہ تعالیٰ) سے مطالبہ کرے گا اور اس وقت جب وہ دیکھیں گے کہ وہ بچ نکلے ہیں، کہیں گے، اے ہمارے رب ! ہمارے بھائی ہیں جو ہمارے ساتھ نماز پڑھتے تھے اور ہمارے ساتھ روزے رکھتے تھے اور ہمارے ساتھ عمل کرتے تھے، تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا، جاؤ اور جسے پاؤ کہ اس کے دل میں دینار کے برابر ایمان ہے اسے نکال لو۔۔ (لمبی حدیث ہے جس میں نصف دینار کے برابر ایمان والوں کو، پھر ذرہ برابر ایمان والوں کو آگ سے نکالنے کا ذکر ہے) چناچہ انبیاء، فرشتے اور مومن شفاعت کریں گے، پھر جبار فرمائے گا، میری شفاعت باقی رہ گئی تو وہ آگ میں سے ایک مٹھی بھرے گا اور ایسے لوگوں کو نکالے گا جو کوئلہ ہوچکے ہوں گے۔“
Top