Al-Quran-al-Kareem - Maryam : 82
كَلَّا١ؕ سَیَكْفُرُوْنَ بِعِبَادَتِهِمْ وَ یَكُوْنُوْنَ عَلَیْهِمْ ضِدًّا۠   ۧ
كَلَّا : ہرگز نہیں سَيَكْفُرُوْنَ : جلد ہی وہ انکار کرینگے بِعِبَادَتِهِمْ : ان کی بندگی سے وَيَكُوْنُوْنَ : اور ہوجائیں گے عَلَيْهِمْ : ان کے ضِدًّا : مخالف
ہرگز ایسا نہ ہوگا، عنقریب وہ ان کی عبادت کا انکار کردیں گے اور ان کے خلاف مد مقابل ہوں گے۔
كَلَّا ۭ سَيَكْفُرُوْنَ بِعِبَادَتِهِمْ : انکار اس معنی میں کریں گے کہ وہ کہیں گے، ہم نے کبھی ان سے نہیں کہا تھا کہ ہماری عبادت کرو، یا ہمیں مصیبت کے وقت پکارو اور نہ ہمیں یہ خبر تھی کہ وہ ہماری عبادت کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے یہ بات کئی جگہ بیان فرمائی ہے۔ دیکھیے سورة یونس (28، 29) ، نحل (86) ، قصص (63) ، فاطر (13، 14) اور احقاف (5، 6) اسی طرح کفار بھی اپنے معبودوں کی عبادت سے مکر جائیں گے اور ان کے خلاف ہوجائیں گے، بلکہ قسم کھا کر کہیں گے کہ اللہ کی قسم ! ہم مشرک نہیں تھے۔ دیکھیے سورة انعام (23) بلکہ وہ اور ان کے معبود ایک دوسرے کو لعنت کریں گے۔ دیکھیے عنکبوت (25) اور سورة بقرہ (166، 167)۔ وَيَكُوْنُوْنَ عَلَيْهِمْ ضِدًّا : یعنی بجائے اس کے کہ وہ ان کے لیے بچاؤ یا عزت کا سبب بنیں، الٹا ان کی پکڑ کا سبب بنیں گے اور قیامت کے دن ان کے شدید مخالف اور ان کے لیے باعث حسرت ہوں گے۔ بیشمار معبودوں کے لیے ”ضِدًّا“ واحد کا لفظ استعمال فرمایا، کیونکہ ”ضِدًّا“ کا لفظ مصدر ہے، جو واحد و جمع اور مذکر و مؤنث سب کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ بعض مفسرین نے فرمایا کہ ان پوجنے والوں کے خلاف ان کے معبودوں کے اتحاد و اتفاق کی وجہ سے ان کو ”شَیْءٌ وَاحِدٌ“ (ایک ہی چیز) فرض کرکے واحد کا صیغہ لایا گیا ہے، جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے تمام مسلمانوں کے متعلق فرمایا : (وَ ھُمْ یَدٌ عَلٰی مَنْ سِوَاھُمْ) [ أبوداوٗد، الدیات، باب أیُقاد المسلم من الکافر ؟ : 4530۔ نسائی : 4738۔ صحیح الجامع : 6666 ] ”وہ اپنے سوا سب کے مقابلے میں ایک ہاتھ ہوتے ہیں۔“
Top